ادارتی تجزیہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکہ کے حالیہ فضائی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ حملے اسرائیل کے جاری حملوں کے بعد کیے گئے، جس سے خطے میں کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف نہ صرف بین الاقوامی قانون کی پاسداری کا تقاضا کرتا ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے تحفظ کی کوشش بھی ہے۔
یہ حملے اقوامِ متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ایران کو اپنی خودمختاری اور دفاع کا پورا حق حاصل ہے، اور کسی بھی ریاست کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسرے ممالک کی داخلی و خارجی خودمختاری کو پامال کرے۔ پاکستان کی جانب سے اس اصولی مؤقف کا اظہار بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس نازک صورتِ حال کی طرف مبذول ہو۔
خطے میں کشیدگی کا مزید بڑھنا تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ پہلے ہی عدم استحکام، جنگوں اور انسانی بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایران پر بار بار کیے جانے والے حملے نہ صرف ایران کے ردعمل کو دعوت دے سکتے ہیں بلکہ ان کے اثرات ہمسایہ ممالک، عالمی معیشت اور توانائی کی رسد پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ایک واقعہ پورے خطے کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔
پاکستان نے درست طور پر بین الاقوامی برادری کو باور کرایا ہے کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ، بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی، اور تمام فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کریں۔ طاقت کا بے جا استعمال نہ صرف قانونی جواز سے محروم ہے بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے۔
موجودہ بحران کا حل صرف اور صرف بامعنی سفارتکاری، پرامن مکالمے، اور اقوامِ متحدہ کے منشور کے اصولوں کے مطابق ہی ممکن ہے۔ طاقت کا استعمال، خاص طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کی جانب سے، ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جو عالمی نظام کو مزید کمزور کرتا ہے۔
پاکستان کی اس پالیسی کا مقصد نہ صرف خطے میں امن قائم رکھنا ہے بلکہ بین الاقوامی نظامِ انصاف، خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا دفاع بھی ہے۔ پاکستان کا مؤقف خطے کے ان تمام ممالک کی نمائندگی کرتا ہے جو امن، خودمختاری اور باہمی احترام کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک اس مؤقف کی مکمل تائید کرتا ہے اور عالمی برادری سے اپیل کرتا ہے کہ وہ جنگ و جارحیت کے بجائے امن، انصاف اور سفارتکاری کی راہ اپنائے تاکہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچایا جا سکے۔ امن صرف طاقت سے نہیں بلکہ عدل، قانون اور مکالمے سے قائم ہوتا ہے۔