تحریر: مبشر ندیم
ایک حقیقی جمہوریت کا تصور پاکستان کے قیام سے ہی دور ہے۔ جب انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور سیاست دان اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں، حقیقی طاقت اکثر بیوروکریسی کے پاس ہوتی ہے، جس سے ایک پیچیدہ اور بعض اوقات متنازعہ تعلق پیدا ہوتا ہے جو ملک کے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دیتا ہے۔
بیوروکریٹک جڑیں:۔
پاکستان کی ابتدائی بنیاد برطانوی راج سے وراثت میں ملنے والے موجودہ بیوروکریٹک نظام پر رکھی گئی۔ نو تشکیل شدہ ریاست میں تجربہ کار سیاستدانوں کی کمی تھی، جس کی وجہ سے گورنر جنرل اور وزیر اعظم سمیت اہم عہدوں پر بیوروکریٹس آتے رہے۔ بیوروکریسی پر یہ انحصار پہلے عام انتخابات میں تاخیر کا باعث بنا، جس سے وہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو مستحکم کر سکے۔
بیوروکریسی کی حکمت عملی:۔
تجزیہ سیاسی منظر نامے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے بیوروکریٹس کے استعمال کردہ مختلف حربوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
براہ راست کنٹرول: گورنر جنرل اور وزیر اعظم جیسے اہم عہدوں پر فائز رہنے سے بیوروکریٹس کو پالیسی اور فیصلہ سازی پر براہ راست اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔
پالیسی میں ردوبدل: ’’ون یونٹ‘‘ جیسی پالیسیاں اور اردو کو قومی زبان قرار دینے کا مقصد بیوروکریٹک کنٹرول کو مضبوط کرنا اور سیاسی اختلاف کو محدود کرنا ہے۔
سیاست دانوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنا: بیوروکریٹس اکثر منتخب عہدیداروں کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے، ان کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے اور ان کی ترقی کو سست کرنے کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
تنازعات کے بار بار چلنے والے چکر:۔
پاکستان کی تاریخ منتخب عہدیداروں اور مضبوط بیوروکریسی کے درمیان تنازعات کے بار بار چلنے والے چکروں سے نشان زد ہے۔ بھٹو کا اقتدار میں آنا اور اس کے نتیجے میں ’’مقتدرحلقوں‘‘ کے خلاف جدوجہد اس کشمکش کی مثال ہے۔ اسی طرح صدر ضیاء الحق کے ساتھ وزیراعظم جونیجو کا تصادم دونوں اداروں کے درمیان تناؤ کو نمایاں کرتا ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
ہائبرڈ حکومت اور خان کا دور:۔
ضیاء کی موت کے بعد، پاکستان ’’ہائبرڈ حکومت‘‘ کے دور میں داخل ہوا، جہاں سیاست دان اقتدار کا عوامی چہرہ رکھتے تھے، لیکن بیوروکریٹس نے پردے کے پیچھے نمایاں اثر و رسوخ برقرار رکھا۔ خان کے اقتدار میں آنے نے اس قائم شدہ نظام کے خلاف ایک دور کی نشان دہی کی، لیکن ان کا سخت رویہ اور بیوروکریسی کو نظر انداز کرنا بالآخر ان کے زوال کا باعث بنا۔
موجودہ چیلنجز اور مستقبل کے امکانات:۔
موجودہ عبوری حکومت کو عوامی تحفظات کو دور کرنے کے بجائے اپنے تحفظ کو ترجیح دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تجزیہ دلیل دیتا ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت، چاہے جزوی طور پر منتخب ہو، تکنیکی یا عبوری حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ عوامی آواز اور جوابدہی کی اجازت دیتی ہے۔
تعلقات کی بحالی:۔
ایک فعال اور مستحکم جمہوریت کے لیے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے درمیان تعاون اور متوازن تعلقات بہت اہم ہیں ہے۔ اعتماد اور تعاون کی تعمیر نو پاکستان کی طویل مدتی جمہوری ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
تنقیدی تجزیہ:۔
اگرچہ یہ تجزیہ پاکستان میں جمہوریت اور بیوروکریسی کے درمیان پیچیدہ حرکیات کے بارے میں قابل قدر بصیرت فراہم کرتا ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر بیوروکریٹک اثر و رسوخ کے منفی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ استحکام اور حکمرانی کے لیے بیوروکریٹس کے ممکنہ تعاون کو تسلیم کرنے سے فائدہ ہوگا۔ مزید برآں، پاکستان کے تاریخی اور سیاسی تناظر میں خالصتاً منتخب حکومت کی وکالت حقیقت پسندانہ یا عملی نہیں ہو سکتی۔
مزید غور و فکر:۔
بیوروکریٹس کی جانب سے نافذ کردہ مخصوص پالیسیوں کو قوم پر ان کے طویل مدتی اثرات کی گہرائی سے تحقیق سے تجزیہ کو تقویت ملے گی۔ مزید برآں، بین الاقوامی دباؤ یا فوجی اثر و رسوخ جیسے بیرونی عوامل کے کردار کی جانچ کرنا طاقت کی حرکیات کے بارے میں زیادہ جامع تفہیم فراہم کرے گا۔ آخر میں، صرف ایک خالص منتخب حکومت کی وکالت کے علاوہ ممکنہ حل پر غور کرنا، جیسے کہ خود بیوروکریٹک نظام میں اصلاحات، ایک زیادہ مستحکم اور جمہوری پاکستان کی طرف زیادہ عملی اور پائیدار راستہ پیش کر سکتی ہیں۔