جمہوری معاشرے میں بہتر انداز میں کام کرنے کے لیے عدلیہ کی سالمیت ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کے حالیہ تبصروں نے عدلیہ کے اندر بدعنوانی کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے اور تقرری کے عمل پر سوالات اٹھائے ہیں۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول میں پینل ڈسکشن کے دوران سابق جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ عدلیہ میں کرپشن صرف مالی بدعنوانی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں اخلاقی، سماجی اور سیاسی بدعنوانی بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس بدعنوانی کی وجہ اس ناقص عمل کو قرار دیا جس کے ذریعے ججوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اقربا پروری اور جانبداری کو ملحوظ خاطر رکھ کر ججز کا تقرر کیا جاتا ہے۔ جسٹس باقر کے ریمارکس نے سپریم کورٹ میں ترقی کے معیار کے طور پر سنیارٹی بمقابلہ میرٹ پر ایک بحث چھیڑ دی ہے۔
مسٹر باقر نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کی آزادی اس کی قیادت کرنے والوں کے کردار، جرات اور صلاحیت پر منحصر ہے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی کہ عدلیہ میں صرف انتہائی قابل اور مستحق امیدواروں کو ہی تعینات کیا جائے، چاہے ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو اور سنیارٹی کچھ بھی ہو۔ انہوں نے انتخابی عمل میں زیادہ شفافیت اور بدعنوانی کے عمل میں ملوث افراد کے لیے احتساب کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
عدلیہ میں کس کا تقرر ہونا چاہیے یہ بحث کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں عدلیہ کی سیاست میں شمولیت اور بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ملک کے سیاسی منظر نامے میں عدلیہ کے کردار پر جاری بحث نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
ماضی میں عدلیہ پر سیاسی مفادات سے متاثر ہونے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں متعدد رکاوٹیں پیدا ہوئیں، جو ججوں کی تقرری کا ذمہ دار ہے۔ کمیشن کو اس کی شفافیت کی کمی اور سیاسی مفادات سے بہت زیادہ متاثر ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کے انتخاب کا عمل شفاف، منصفانہ اور مکمل طور پر میرٹ پر مبنی ہو۔ اقربا پروری، جانبداری اور دیگر بدعنوان طرز عمل کو اس عمل سے ختم کرنا ہوگا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ صرف اہل اور مستحق امیدوار ہی عدلیہ میں تعینات ہوں۔ مزید برآں، بدعنوانی میں ملوث افراد کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کوئی طریقہ کار قائم کیا جانا چاہیے۔
اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ عدلیہ آزاد اور سیاسی مداخلت سے پاک رہے۔ ججوں کی تقرری قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور آئین کی غیر جانبداری سے تشریح کرنے کی ان کی اہلیت پر مبنی ہونی چاہیے۔ عدلیہ کو ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو سیاست سے بالاتر ہو اور جو پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے پرعزم ہو۔
پاکستانی عدلیہ ایک بار پھر خبروں میں ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مقبول باقر نے عدالتی نظام میں “بدعنوانی” کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر باقر نے روشنی ڈالی کہ عدلیہ کے اندر بدعنوانی صرف مالی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور سیاسی بھی ہے۔ ان کا یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے عدلیہ کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مسٹر باقر نے عدلیہ کے اندر بدعنوانی کی بنیادی وجہ اقربا پروری، جانبداری اور میرٹ کی بنیاد پر انتخابی عمل کی کمی کو قرار دیا ہے ۔
مسٹر باقر کے مطابق، عدلیہ کی آزادی بالآخر ان افراد پر منحصر ہے جو اس کی قیادت کرتے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ میں اچھے کردار، ہمت اور اہلیت رکھنے والے افراد کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جسٹس مقبول باقر کے ریمارکس نے عدالتی نظام کے مختلف درجوں کے لیے تقرری کے عمل پر تنقیدی نظر ثانی کا دروازہ کھول دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں کس کو ترقی کے قابل سمجھا جانا چاہیے اس پر جاری بحث جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں متعدد اسٹینڈ آف کا نتیجہ ہے۔ کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ سنیارٹی کو ترقی کی بنیاد ہونی چاہیے، جب کہ کچھ لوگ میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کے لیے استدلال کرتے ہیں۔ دونوں اقدامات میں خامیاں ہیں، اور تقرری کے لیے ایک واضح، معقول عمل کے ذریعے تعطل کو توڑنا باقی ہے۔
عدلیہ کے اندر بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ججوں کی تقرری کے لیے میرٹ پر مبنی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخاب کا عمل شفاف، منصفانہ اور اقربا پروری اور جانبداری سے پاک ہونا چاہیے۔ عدالتی نظام کی آزادی اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری ان کے رابطوں کی بجائے ان کی اہلیت اور تجربے کی بنیاد پر ضروری ہے۔
پاکستان میں صرف ججوں کی تقرری ہی عدلیہ کو متاثر کرنے والا مسئلہ نہیں ہے۔ ججوں کے احتساب کا فقدان ایک اور تشویش ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں اور اقدامات کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار قائم کیا جانا چاہیے کہ بدعنوانی میں ملوث ججوں کا احتساب کیا جائے۔
آخر میں، عدلیہ کے اندر بدعنوانی پاکستان میں ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدالتی نظام کی آزادی اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے میرٹ، شفافیت اور احتساب کی بنیاد پر ججز کی تقرری انتہائی ضروری ہے۔ مزید بدعنوانی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر ججوں کی تقرری کے عمل کو مضبوط بنایا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صرف “اچھے کردار، جرات اور اہلیت” کے حامل افراد کو عدلیہ میں شامل کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان تعطل کو ختم کرے اور تقرری کے لیے ایک واضح اور معقول عمل قائم کرے جس سے ملک کے عدالتی نظام اور پوری قوم کو فائدہ پہنچے۔