تحریر: حفیظ اللہ خان خٹک
ملک میں عام انتخابات کا جوش و خروش آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اور امیدوار ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی عوام اتنی سادہ ہے کہ ان وعدوں پر یقین کر لیتی ہے، حالانکہ اسی طرح کے دعوے سیاسی جماعتیں اور امیدوار ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں، لیکن ہردفعہ عوام کو مایوسی کا سامنا ہی کرنا پڑا ہے۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں صرف ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی بارش میں شہر ڈوب گیا۔
کراچی میں بارش نے صوبائی محکموں اور بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کو بے نقاب کیا۔ بارش کے بعد بجلی کا نظام فیل ہو گیا اور آٹھ سو سے زائد فیڈر ٹرپ کر گئے جس سے شہر تاریکی میں ڈوب گیا، اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے ٹریفک کا نظام درہم برہم جبکہ کئی مقامات پر بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔
اب تک کی انتخابی مہم داخلی معاشی صورت حال اور سیاست پر زیادہ مرکوز رہی ہے، اور دیگر اہم مسائل جیسے خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی، اور سکیورٹی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ موجودہ انتخابی مہم میں اہم مسائل نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے حقیقی معاشی منصوبے عوام کے سامنے نہیں رکھ رہیں۔ وہ جھوٹے نعروں اور وعدوں سے عوام کو بہکانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تیسرا بڑا ملک ہے جو متاثر ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے دوبڑے شعبوں آبی ذخائر اور زراعت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت نقصان میں چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے یہاں بیجوں پرکوئی تحقیق نہیں ہورہی ہے۔
معاشی صورت حال بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عوام کے لیے بڑے مسائل ہیں۔ بیس برس بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ لیکن سیاستدان کوئی ایسے منصوبے نہیں پیش کر رہے جس سے بیس برس کے بعد اس آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بندوبست کیا جا سکے۔ پھر بھی یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کررہا ہے حالانکہ ترقی صرف جاگیردار اور سرمایہ دار کررہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں انتخابی جلسوں میں بجلی مفت اور سستی کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کیا آئی ایم ایف سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے اور آئی ایم ایف پاکستا ن سے چلا جائے گا ؟ کیا قرضے ختم ہوجائیں گے اور دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ آخر ہوگا کیا کہ جن کی بنیاد پر ایسے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار محض وعدے ہی کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں کوئی منصوبے نہیں پیش کیا جا رہا۔
ہمارے تعلیمی نظام انگریز دور کا ہی چلا آرہا ہے۔یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام آج بھی لارڈ میکالے کا ہے جو صرف کلرک ہی پیدا کرتا ہے۔
موجودہ انتخابی مہم میں، سیاسی جماعتیں اصل مسائل سے فرار اختیار کر رہی ہیں۔ وہ عوام کو خوش کرنے کے لیے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی حقیقی منصوبہ نہیں ہے۔ عوام میں بے چینی، مایوسی، اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی ہے اور ان کی ضروریات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اگر اس صورت حال کو بروقت نہیں سنبھالا گیا تو یہ ملک کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ عوام کا اعتماد کھو سکتا ہے اور تشدد اور بغاوت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
موجودہ انتخابی نظام پاکستان کے عوام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ نظام جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ہے، جس کی وجہ سے صرف وہی لوگ منتخب ہو سکتے ہیں جن کے پاس کروڑوں روپے ہوں۔ یہ امیر امیدوار انتخابی مہموں پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں، اور جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو اپنی دولت اور اقتدار میں اضافے پر توجہ دیتے ہیں۔
عوام کے مسائل ان منتخب نمائندوں کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تعلیم، صحت، روزگار، اور دیگر اہم شعبوں میں بہتری لانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے ہیں۔ سیاست دان ہر الیکشن میں عوام کو جھوٹے وعدوں اور نعروں سے بہلاتے ہیں، عوام کو بہتر مستقبل کا خواب دکھاتے ہیں، لیکن کبھی بھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتے ہیں۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
موجودہ سیاسی نظام میں، عوام اور سیاستدانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج حائل ہے۔ سیاستدان عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنی ذاتی مفادات میں مصروف رہتے ہیں۔ان کی تنخواہوں اور مراعات پر عوام کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے منشور میں عدالتی اور پولیس اصلاحات جیسے اہم مسائل شامل نہیں ہوتے ، جو ملک کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
سیاست دان یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس ملک میں جھوٹے وعدوں پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ہے ، اس لیے وعدے کرتے جاؤ اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہو۔عوام کو صرف پیٹ کی بھوک کے مسائل سے دوچار سمجھا جاتا ہے ۔ انتخابات سے قبل انہیں جھوٹے وعدوں سے بہلایا جاتا ہے لیکن انتخابات کے بعد، عوام اور ان کے منتخب کردہ حکمرانوں کے درمیان ایک نہ عبور ہونے والی دیوار حائل ہو جاتی ہے۔ عوام کو اپنے نمائندوں تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے اور ان کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔انتخابات جیتنے کے بعد اقتدارکی بے حس راہ داریوں میں حکمرانوں کو عوام سے کیے گئے وعدے اور دکھائے جانے والے سارے خواب یاد نہیں رہتے۔
اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور غربت ہے اس لیے اُن سے نجات کے لیے وعدے کیے جارہے ہیں، پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموماً بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد مشکل ہوتا ہے، درحقیقت دنیا جمہوری سیاست کو عمومی طور پر عوامی مفادات کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں عوامی بہبود اور ریاستی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ عوامی حمایت کے حصول کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں۔
اکثریت کی حمایت مل جانے پر حکومت کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق حکومتی دورانیے میں ان کی تکمیل کرتی ہیں۔ جمہوری سیاسی نظام میں انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں، بالخصوص حکمران سیاسی جماعتوں کا سیاسی اور عوامی احتساب ان کے منشور اور وعدوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
انتخابات میں حصہ لینا ہر شہری کا حق اور فرض ہے۔ عوام کو اپنے ووٹ کا استعمال شعور اور آگاہی سے کرنا چاہیے۔ انہیں جھوٹے نعروں اور وعدوں میں نہیں آنا چاہیے۔ عوام کو ایسے امیدواروں کو ووٹ دینا چاہیے جو اہل اور قابل ہوں اور جو ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس منصوبے رکھتے ہوں۔سیاسی جماعتوں کو اپنے حقیقی معاشی منصوبے عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ اس سے عوام کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ وہ کسے ووٹ دیں۔
جب تک عوام اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے ان کا اپنا اور پاکستان کا مقدر مخدوش ہی رہے گا۔ ماضی کی حکمران جماعتوں نے کسی نہ کسی صورت اپنے حجم کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار معاملہ یہ ہے کہ معاشی حالات بہت برے ہیں اس لیے آیندہ حکومت کو ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوناہوگا۔