Premium Content

‏پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مشکلات اور حل

Print Friendly, PDF & Email

جنوری 2022 کے اوائل میں پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کی مقبول ترین جماعت تھی۔ اس بیان کو اس طرح بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضمنی الیکشن بھی واضح اکثریت سے جیت رہی تھی۔

اسکی دو بنیادی وجوہات تھیں، ایک یہ کہ “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ جمہور پسند لوگوں میں مقبول تھا اور دوسرا گورننس اور مہنگائی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف عوام میں غیر مقبول ہو رہی تھی۔

جب عمران خان اور تحریک انصاف اپنی غیر مقبولیت کی انتہا پر تھےتو رجیم چینج کا فیصلہ کیا گیا۔ گویا کہ ظاہری پر رجیم چینج کا پراسیس آئینی طور پر کیا گیا ، تا ہم اس کے پیچھے کار فرما عناصر بھی عوام سے ڈھکے چھپے نہ تھے۔

ایک طرف پاکستان مسلم لیگ ن کا اپنے ماضی کے سیاسی حریفوں کے ساتھ پی ڈی ایم کی صورت میں الحاق عوام کو پسند نہ آیا تو دوسری طرف ن لیگ کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ الحاق بھی عوام کو ہضم نہ ہوا۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

اس صورت میں مسلم لیگ ن کے پاس سوائے گورننس کے دوسرا کوئی آپشن باقی نہ بچا تھا۔ کیونکہ تحریک انصاف گورننس اور مہنگائی کی وجہ سے غیر مقبول ہوئی تھی لہذا، اب مسلم لیگ ن کو ان اقتصادی مسائل پر قابو پانا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اور ن لیگ نظریاتی، اقتصادی اور انتظامی طور پر مقابلتاً انتہائی ناکام ہوتی چلی گئی اور نتیجتاً اسی عوام نے تحریک انصاف کی ایوریج گورننس کو نسبتاً بہتر گردانا۔

اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نظریاتی طور پر غیر جمہوری سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے تو سب سے پہلے اسکو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ اسکے علاؤہ قانون و آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی وہ عوام میں مقبول رہ سکتی ہے۔

مسلم لیگ ن نے نظریاتی و جمہور پسند پارٹی کے طور پر جتنا نقصان اٹھایا ہے اسکا ازالہ مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ دوسرا پاکستان مسلم لیگ ن ریاستی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہو رہی ہے جسکی وجہ سے عوام اس سے شدید ناراض ہیں۔ نہتے سیاسی ورکرز اور عوام پر طاقت کے استعمال سے سیاسی جماعتیں عوام میں مقبول نہیں رہ سکتیں ۔ کیونکہ تحریک انصاف خود کو عوام کے سامنے مظلوم پیش کر رہی ہے تو قدرتی طور پر عوام کی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہے۔

مزید برآں پاکستان مسلم لیگ ن کو اس سے ذیادہ نقصان اسکے ناقص گورننس ماڈل نے پہنچایا ہے۔ ن لیگ کا سب سے بڑا چیلنج انکمبینسی فیکٹر ہے ۔

تحریک انصاف نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کو ختم کر کے خود کو اس فیکٹر سے آذاد کر لیا ہے لہذا ن لیگ ہی اب اسکا وکٹم بنے گی۔مہنگائی ، بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام نے عوام کو مسلم لیگ ن سے متنفر کر دیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کا اصل امتحان قیادت کا فقدان ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور واپسی کے لیے پرجوش نہیں ہیں۔ ایسے میں بھلا ن لیگ مقبول کیسے رہ سکتی ہے جبکہ مسائل ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوں۔ جب مرکزی قائد ہی سیاسی جماعت کو دستیاب نہ ہو تو بھلا کیسے سیاسی جماعت فنکشنل رہ سکتی ہے؟ تحریک انصاف کی موجودہ مقبولیت کی بنیادی وجہ عمران خان کا پاکستان میں رہ کر مقابلہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کو زبردستی لیڈر نہیں بنایا جا سکتا۔

مسلم لیگ ن پنجاب کی اہم سیاسی جماعت ہے اور اسکا سیاست میں مضبوط رہنا جمہوریت کے لیے ضروری ہے تاہم ایسا ہونے میں ن لیگ کو انتہائی مشکل فیصلے کرنا ہونگے ۔ الیکشن کا وقت پر انعقاد ایسا ہی فیصلہ ہے۔ اسکے علاؤہ ن لیگ کو پنجاب کے عوام سے معافی مانگ کر آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔ بنیادی انسانی حقوق پر عملداری کو یقینی بنانا ہو گا۔

موروثی سیاست کی جگہ میرٹ پر قیادت سامنے لانا ہو گی۔ مزید اسے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لا کر آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہونگے۔ مزید برآں ن لیگ اور تمام سیاسی جماعتوں کو فنکشنل گورننس سسٹمز متعارف کروانا ہونگے اور اشرافیہ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔
ایسا کیا ممکن ہے؟ اسکا تعین صرف وقت ہی کریگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos