دہشت گردی کے خلاف کوئی رعایت ناقابلِ قبول۔

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان ایک بار پھر اس خوفناک حقیقت کا سامنا کر رہا ہے کہ دہشت گردی اس کے لیے اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں خودکش دھماکے، جس میں کم از کم 12 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، نے دارالحکومت کے امن و تحفظ کے تصور کو چکنا چور کر دیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنا ملک میں شدت پسندی کے ازسرِ نو ابھرنے کی نشاندہی کرتا ہے اور ریاست کی انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں میں موجود سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔

ویب سائٹ

دہشت گردوں نے اپنے اس وحشیانہ عمل کو ’’غیر اسلامی قوانین‘‘ کے خلاف انتقام قرار دیتے ہوئے مزید خونریزی کی دھمکی دی ہے، یہاں تک کہ ان کا انتہاپسندانہ نظریہ غالب آجائے۔ یہ صرف عدلیہ پر حملہ نہیں بلکہ پاکستان کے آئین، خودمختاری اور قانون کی بالادستی پر براہِ راست حملہ ہے۔ یہ ایک واضح تنبیہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف دہائیوں پر محیط نرم رویہ، مذاکرات اور نیم دلانہ اقدامات ان نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو آج بھی سرحدوں کے اندر اور باہر سرگرم ہیں۔

یوٹیوب

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے تصدیق کی ہے کہ حملے کے تانے بانے ایک بار پھر افغان سرزمین سے جا ملے ہیں جو پاکستان مخالف گروہوں کے لیے پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں وانا، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں ہونے والے حملے شدت پسند گروہوں کے باہمی ربط کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان اب مزید سفارتی احتیاط یا سیاسی تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ٹوئٹر

پاکستان کو سیاسی، عسکری اور سفارتی سطح پر مکمل طور پر عدم برداشت کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے ہر نیٹ ورک کو — چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی پشت پناہی سے چل رہا ہو — بلا امتیاز اور بلا تاخیر ختم کیا جائے۔ مکالمہ فیصلہ کن کارروائی کا متبادل نہیں ہو سکتا، اور کسی بھی نظریاتی جواز کے تحت پاکستانی عوام کے خلاف تشدد کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ قومی اتحاد اور غیر متزلزل انسدادِ دہشت گردی اقدامات ہی ملک کے امن، قانون اور مستقبل کے تحفظ کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

فیس بک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos