ادارتی تجزیہ
پاکستانی سیاست میں ذاتیات پر حملے اور گھریلو افراد، خصوصاً خواتین و بچوں کو نشانہ بنانا ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے۔ یہ طرزِ سیاست صرف سیاسی مخالفین تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس میں وہ صحافی اور تجزیہ کار بھی شامل ہو چکے ہیں جو خود کو کسی جماعت کا حامی ظاہر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، کردار کشی اور افواہوں کی یلغار نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاس ہے بلکہ جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
یہ رویہ عوام، خصوصاً تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو سیاست سے بدظن کر رہا ہے۔ وہ طبقہ جو آئین، ادارہ جاتی استحکام اور مکالمے پر یقین رکھتا ہے، جب ذاتی حملے، بیہودہ زبان اور بے بنیاد الزامات سنتا ہے، تو سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لیتا ہے۔ یہی لاتعلقی جمہوریت کے لیے مہلک ہے۔
سیاست کا اصل مقصد پالیسی، قانون سازی اور عوامی بہبود ہونا چاہیے، نہ کہ کسی کی بہن یا بیوی کو بیانیے کا محور بنانا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا بریگیڈز اور سنسنی پسند میڈیا نے اس زہر کو معمول بنا دیا ہے۔ ذاتیات کو نشانہ بنانے والے کلپس اور ویڈیوز روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں، جس سے نہ صرف قومی مکالمہ تباہ ہو رہا ہے بلکہ معاشرتی اقدار بھی پامال ہو رہی ہیں۔
پاکستان جیسے حساس معاشرے میں جہاں خاندانی حرمت اہم ہے، وہاں اس قسم کی سیاست معاشرتی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ سیاسی قیادتیں فوری طور پر اس طرزِ سیاست کی مذمت کریں، اپنے کارکنان کو اس سے روکیں اور ایسی سیاسی ثقافت فروغ دیں جو مکالمہ، برداشت اور دلیل پر مبنی ہو۔ بصورتِ دیگر باشعور طبقہ سیاست سے کٹ جائے گا، اور جمہوریت خالی خول بن کر رہ جائے گی۔