مصنف : عبدالرؤف
مصنف وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔حال وقت غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کے قیام کیلئے طبقاتی جدوجہد کے پلیٹ فارم پر کوشاں ہیں ۔
تیس نومبر ۔۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا جنم دن ۔۔ راستہ جو چھوٹ گیا۔جدوجہد جو رائیگاں گئی ۔منزل جو کھو گئی۔ مگر سوشلسٹ انقلاب کی تعمیر کی حسرت جو تھی سو وہ اب بھی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹیاں اور تنظیمیں انسانوں کی طرح جنم لیتی ہیں، ان پر بھی بچپن، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپے کے ادوار آتے ہیں۔ پارٹیاں اور تنظیمیں خود رَو جڑی بوٹیوں کی طرح از خود نہیں اُگ پڑتیں ۔ بلکہ کسی ضروری سماجی یا ذاتی مجبوری اور محرومی کے خاتمہ کی مقصدیت کیلئے بنتی ہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا 30 نومبر 1967ء کا جنم بھی اسی سماجی محرومی کے خاتمے کے مقصد کے نتیجے میں تھا۔ جس سے برِ صغیر کے عوام کو شہید بھگت سنگھ اور جہازیوں کی بغاوت کے سوشلسٹ انقلاب سے محروم کرنے کیلئے نام نہاد آزادی کے جھانسہ میں خود برِ صغیر کو سامراجی ضرورت کے تحت تقسیم کردیا گیا۔
اس تقسیم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے برِصغیر کے دو ملکوں پاکستان اور ہندستان کے عوام کو کم و بیش ستائیس لاکھ بے گناہوں کے لاشے، تقریباً اڑھائی کروڑ لوگوں کی خانماں برباد ہجرت اور ان گنت عورتوں کٹے پستانوں اور تار تار عصمتوں کے بدن کے سوا کچھ نہ ملا۔ ہاں البتہ ان دو ممالک کی اشرافیہ اور بالادست طبقے کی ان لاشوں، ہجرتوں اور لٹی عصمتوں پر تجارت خوب چمک اٹھی جو ابھی تک نفع میں جا رھی ھے۔ برِ صغیر کے محنت کشوں کی بربادی پر استاد دامن نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔
برباد انہاں آزادیاں توں
ہوئے تسی وی او ہوئے اسی وی آں
اج اکھاں دی لالی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
اور پھر تقسیم کے حالات دیکھ کر عظیم شاعر فیض احمد فیض تلملا اٹھے اور ایک نظم میں اس آزادی کو ” داغ داغ اجالے” اور “شب گزیدہ سحر” سے تشبیہ دیدی۔
پاکستان کے جنم کے ستائیس سال بعد تک جمہوریت نما آمریت اور آمریت کے نام کی جمہوریت کا وسائل کی غیر منصفانہ اندھا دھند بندر بانٹ جاری رھی ۔ ملکی وسائل کے اصل مالک ہر سہولت اور ہر خوشی سے صرف محروم ھی نہیں رھے بلکہ ان کی زندگیوں کو ایک سے بڑھ کر ایک اذیت، ذلت اور نا مرادی سے بھر دیا گیا۔ ہر طرف بالادست طبقے کے استحصالی نحوست کے سائے تھے۔ مایوسی ایسی شدید کہ جسے عوامی شاعر حبیب جالب سناٹے سے تعبیر کرتے تھے۔ مگر پھر عظیم مارکسی استاد کامریڈ ڈاکٹر لال خان کے بقول ” محنت کش طبقہ اپنی تمام تر ذلتوں ، اذیتوں اور مایوسی کے باوجود ان سے نجات کی سوچ سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا “۔۔۔
ملک پر ایوبی آمریت کی نحوست کے سناٹوں میں لوگ خاموش تھے مگر بے حس نہیں تھے۔ اسی سناٹے میں پاکستان پیپلزپارٹی ڈاکٹر مبشرحسن کے گھر جنم لیتی ھے۔ جس کے بنانے کے مقصد کو پارٹی کی بنیادی دستاویز میں ایک فقرے میں اس طرح سمویا جاتا ھے کہ ” پاکستان پیپلزپارٹی کے بنانے کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ھے جو صرف اور صرف سوشلزم کے ذریعے ھی ممکن ھے“۔ اس پارٹی کے اعلان پر ملک کے تمام اخبارات میں اس قسم کے تبصرے ہوتے ہیں کہ ” ملک میں پہلے سے بڑی بڑی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے کچھ نا کام وکیلوں، چند مایوس دانشوروں اور کئی گمراہ و بگڑے نوجوانوں کی اس پارٹی کی ضرورت کیا تھی؟ اور اب حیثیت ھی کیا ھے؟
انہی اخباری تبصروں کی دھول میں راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کے کچھ نوجوانوں کی پشاور سے تفریحی دورے پر پولیس سے سامان کی تلاشی پر تکرار ہوتی ھے۔ نوجوان طلباء اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ کالج میں احتجاج ہوتا ھے۔ پولیس کو حسبِ روایت یہ احتجاج ناگوار گزرتا ھے۔ لاٹھی چارج ہوتا ھے۔ گولی چلتی ھے اور ایک نوجوان عبدالحمید شہید ہو جاتا ھے۔
عبدالحمید کی شہادت پر ماتم نہیں ہوتا بلکہ احتجاج میں وسعت آتی ھےاور احتجاج ذاتی مطالبوں سے نکل کر معاشی اور معاشرتی حقوق کے حصول میں بدلتا ھے۔اس احتجاج میں شدت آتی ھے۔ اس شدت میں پاکستان پیپلزپارٹی ترنگا پرچم ان نعروں کیساتھ سربلند ہوتا ھے کہ ” مانگ رہا ھے ہر انسان؟ روٹی کپڑا اور مکان“۔ جیہڑا روے اوہو کھاوے ، سوشلزم آوے آوے“۔ ”کھیت کسان کے مل مزدور کی“۔ اور پھر صرف نعرے بلند نہیں ہوتے کھیتوں پر کسانوں اور کارخانوں پہ مزدوروں کے قبضے ہوتے ہیں۔ فصلوں کے محصول اور مکانات و ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی ادائیگی سے انکار ہوتے ہیں۔۔۔
اس 67-68کی عوامی سرکشی میں سب کچھ ہوتا ھے۔ مگر ایک طرف ماسکو اور بیجنگ سے ہدایات لینے والے سب پرانے انقلابی تحریک کے عروج میں سیاست سے توبہ تائب ہوکر گوشہ نشیں ہو جاتے ہیں ۔ دوسری طرف سوشلسٹ پروگرام پر جنم لینے والی پیپلز پارٹی، ایک بے ترتیب ہجوم، بے ہنگم نعرہ بازی اور شخصیت پرستی کے فریب سے نکل کر ایک انقلابی پارٹی نہیں بن پاتی ۔
نتیجۃً بکھرے اور سرکش عوام پاکستان کی سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے بڑے بڑے برج تو الٹ دیتے ہیں۔ سرداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مخدوموں ، گدی نشینوں ، ججوں اور جرنیلوں کے جعلی تقدس کو تو خاک میں ملا دیتے ہیں مگر انقلاب نہیں لا پاتے اور ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔
بعد کے سارے عرصے میں پارٹی عقیدت کے عذاب میں ڈھلتی ھے۔ بھٹو کی پھانسی ، اور ضیاء آمریت میں سینکڑوں، ہزاروں کارکنوں کی جلا وطنی، قید اور کوڑوں کو اعزاز بنایا جاتا ھے۔ مگر اگلے ھی لمحے بھٹو کے قاتل ججوں ، جرنیلوں اور بالادست طبقے سے سودا بازی ہوتی ھے۔ پارٹی کے دشمن پارٹی تنظیموں کے مالک ٹھہرتے ہیں۔ عہدے ذاتی اطاعت گزاروں ، خوشامدیوں اور چاپلوسوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ پارٹی کو ایک نہیں، دو نہیں، تین تین اقتدار ملتے ہیں مگر جس محنت کش طبقے کے نام پر اور جن لوگوں کے نجات کیلئے پارٹی کا جنم ہوتا ھے وہ اب تک کے پچپن سال کا میزان یہ ھے کہ پاکستان کے محنت کش پہلے سے کئی گنا زیادہ اذیت ، ذلت میں مبتلا ہو کر سرداری، سرمایہ داری، ریاست کی سول و ملٹری ادارے اور مذہبی بیوپاروں کی جکڑی بندی اور شکنجے میں تڑپ اور سسک رھے ہیں ۔۔۔
لیکن اگر 1947ء سے 1967ء تک کے عہد کی خباثت نے عوام کی غضبناک للکار کو دیکھا ھے۔ تو سوشلسٹ انقلاب کی منزل کے کھو جانے کے کرب کے درد سہنے کے باوجود پاکستان محنت کش طبقہ اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے اور انسانی شرف کے حصول سے مایوس نہیں ھے۔ وہ ایک بار پھر کروٹ لے کر اپنے دشمن بالادست طبقے کو للکارے گا۔ مگر اس بار پہلے کی سب غلطیوں اور جرائم سے سبق سیکھ کر پاکستان کا محنت کش طبقہ سوشلسٹ انقلاب اس عزم کے ساتھ کرے گا کہ ۔۔۔۔۔
ایسا بھی اک وقت آئیگا کون و مکاں تعظیم کریں گے
جو بھی کہیں گے دیوانے وہ اہلِ خرد تسلیم کریں گے
اب کے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے
پھولوں کو تقسیم کریں گے کانٹوں کو تقسیم کریں گے