ندیم رضا
پاکستانی سیاست میں کامیاب امیدواران عموماً قابل انتخاب ہی قرار پاتے ہیں۔ قابل انتخاب پر نظریاتی و سیاسی تنقید کی جا سکتی ہے مگر ان کی حلقے میں محنت اور انتظامی کارکردگی ہی انکی جیت کے اہم محرکات ہیں۔ قابل انتخاب عموماً حلقہ میں سیاسی و سماجی اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ ذیادہ تر قابل انتخاب حلقے میں بڑی برادریوں ، قبائل ، دھڑوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا امیدوار جسکی برادری یا دھڑا نہ ہو، کیا پاکستان میں وہ الیکشن جیت سکتا ہے ؟
پاکستان میں بنیادی طور پر دو طرح کے انتخابی حلقہ جات ہے۔ ایک شہری اور دوسرے نیم شہری یا دیہاتی۔ جہاں تک شہری حلقوں کا تعلق ہے وہاں پر سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں اور کوئی بھی امیدوار بشرطیکہ محنت و تنظیمی صلاحیتوں پر برادری اور دھڑے کے بغیر بھی جیت سکتا ہے۔ تاہم نیم شہری اور دیہاتی حلقوں میں جیت کے لیے سیاسی جماعت کی سپورٹ کے علاؤہ برادری و دھڑے کا ووٹ ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور انتخابی کلچر میں صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین منتخب کرنے کے لیے قانون سازی کی صلاحیت کی بجائے لوکل گورنمنٹ کی پرفارمنس کا نظام رائج ہے۔ اصولی طور پر تو قانون ساز نمائندے منتخب ہونے چاہیے مگر پاکستانی ووٹرز لوکل گورنمنٹ کے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ انکے ذاتی اور گراس روٹ کے مسائل حل ہوں۔
پاکستان میں قابل انتخاب کیسے بنتے ہیں؟ عموماً اقتدار سے پہلے حلقے میں سماجی اور مالی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ شادی بیاہ، فوتگی، اور دوسرے سماجی میل ملاپ کے ذریعے عوام کو اپنی سماجی رسائی میسر کرنا ہوتی ہے۔ معاشرتی و سماجی طور پر لوگوں سے رابطہ ہر لحاظ سے حق نمائندگی کے لیے ضروری ہے۔ مالی لحاظ سے مضبوط قابل انتخاب، خیراتی اور سماجی منصوبوں کے ذریعے بھی عوام سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اقتدار کے بعد قابل انتخاب لوگوں کے ذاتی مسائل، جیسا کہ سرکاری دفاتر تک رسائی، تعیناتیاں اور دوسرے انتظامی مسائل حل کرتے ہیں اور اسکے ساتھ علاقے کی ترقی کا بھی کام کرتے ہیں۔ یوں قابل انتخاب بہت سے لوگوں کو اپنے سماجی نیٹ ورک میں لے آتے ہیں، اور مضبوط امیدواران کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں مضبوط ہونے سے قابل انتخاب کا کردار محدود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کے بغیر الیکشن میں کامیاب ہونا ممکن نہیں رہا۔ تاہم الیکشن جیتنے کے لیے مضبوط امیدوار کا ہونا ضروری ہے۔ مضبوط امیدوار سے مراد قابل انتخاب ہونا ضروری نہیں ہے۔ مضبوط امیدوار بنیادی طور پر سماجی حیوان ہونا چاہیے اور اس میں لوگوں کے ساتھ رابطہ کاری، گفتگو سازی اور سماجی انتظامی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ اسکے بعد اسکو سماجی ٹیکنالوجی اور روایتی میل ملاپ کے سارے گر معلوم ہونے چاہیں ۔ اس میں یہ بنیادی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کو اپنے اور پارٹی کے نظریے پر قائل کر سکے۔ اسکے بعد بنیادی فیکٹر محنت کا ہے۔ صرف محنتی امیدوار ہی سیاسی طور پر کامیاب ہوتا ہے۔ حلقے کے ہر ووٹر تک پہنچنا اور سیاسی الیکشن کمپین کے تمام سماجی، معاشرتی، سیاسی اور مالی معاملات کو مینج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لیے امیدوار میں الیکشن جیتنے کی بنیادی انتخابی صلاحیت ہونی چاہیے۔ امیدوار میں تیسری بنیادی صلاحیت ٹیم ورک کی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں الیکشن پینل کی صورت میں لڑا جاتا ہے۔ اس لیے پینل کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواران کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنا ضروری ہوتا ہے۔
اس تناظر میں نارووال سے احسن اقبال اور ابرار الحق کی مثال دی جا سکتی ہے۔ احسن اقبال صاحب حلقے کی تمام یونین کونسلز تک منظم ہوتے ہیں اور ابرار الحق صرف کچھ یونین کونسلز تک ہی کام کرتے ہیں۔ ابرار الحق کی شکست کی بنیادی وجہ حلقے میں وقت کم دینا، محنت نہ کرنا اور سوشل کیپٹل تشکیل نہ دینا رہی ہیں۔ جب امیدواران الیکشن جیتنے کے بنیادی لوازمات ہی پورے نہیں کریں گے تو الیکشن کیسے فتح کریں گے؟
آخر میں الیکشن میں قابل انتخاب کو ہرایا جا سکتا ہے۔ مضبوط امیدواران بنیادی طور پر محنتی ہوتے ہیں۔ وہ دن رات الیکشن کمپین میں محنت کر کے اپنا اور سیاسی جماعت کا تمام استعداد کور کر لیتے ہیں اور یہ تاثر دینے میں کامیاب رہتے ہیں کہ وہ مقابلے میں ہیں۔ ابتدائی کامیابی یہ ہے کہ امیدوار حلقے میں تاثر قائم کرے کہ وہ مقابلے میں ہے تاکہ نفسیاتی و جذباتی رجحانات پر قابو پایا جا سکے۔ امیدوار پورا حلقہ کور کر کے پارٹی کا نظریہ ہر ووٹر تک پہنچائے۔ سیاسی ، انتظامی، اخلاقی اور سماجی تنظیم سازی کے ذریعے سوشل کیپٹل بنانے کا ماہر ہو۔ الیکشن کمپین اور پولنگ ڈے منیجمنٹ کا ماہر ہو۔ تاہم ایسا کرنے میں تین ماہ کا عرصہ درکار ہے اس لیے پارٹیز کو ٹکٹس تین ماہ پہلے تک لازمی دے دینے چاہئیں ۔