اسلام آباد — پاکستان اس وقت شدید ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے، جن میں پلاسٹک آلودگی ایک نمایاں اور تیزی سے بڑھتا ہوا بحران بن چکی ہے۔ تخمینوں کے مطابق، ملک میں ہر سال تقریباً 30 لاکھ ٹن سے زائد پلاسٹک فضلہ پیدا ہوتا ہے، جس میں سے صرف ایک محدود حصہ ہی (دوبارہ استعمال کے قابل بنانا) کے عمل سے گزرتا ہے۔ باقی ماندہ پلاسٹک کچرا اکثر و بیشتر کھلے میدانوں، نکاسی آب کے نظام، دریاؤں اور بالآخر سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف ماحولیاتی توازن کو متاثر کر رہی ہے بلکہ انسانی صحت، آبی حیات اور زرعی زمینوں کے لیے بھی شدید خطرات کا باعث بن رہی ہے۔
اس بڑھتی ہوئی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ سنگل یوز پلاسٹک ہے—یعنی وہ پلاسٹک اشیاء جو صرف ایک بار استعمال کے بعد ضائع کر دی جاتی ہیں، جیسے پلاسٹک بیگز، بوتلیں، فوڈ پیکنگ، اسٹرا اور کٹلری وغیرہ۔ یہ اشیاء اگرچہ روزمرہ زندگی میں سہولت فراہم کرتی ہیں، تاہم ان کے غیر ذمہ دارانہ اخراج اور عدم تلفی کے باعث یہ زمین اور آبی نظام میں دیرپا زہریلے اثرات چھوڑتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، پلاسٹک کے گلنے میں صدیاں لگتی ہیں، اور اس دوران یہ مائیکرو پلاسٹک ذرات میں تبدیل ہو کر قدرتی وسائل کو آلودہ کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں حکومتِ پاکستان نے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف پالیسی اقدامات متعارف کروائے ہیں۔ 2019 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سنگل یوز پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی گئی، جس کے بعد دیگر شہروں میں بھی اسی طرز پر اقدامات کیے گئے۔ وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے ایک قومی ماحولیاتی پالیسی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کا ہدف پلاسٹک کے استعمال میں کمی، (دوبارہ استعمال کے قابل بنانا) کے فروغ اور ماحول دوست متبادل اشیاء کی ترویج ہے۔ تاہم، ان پالیسیوں پر مؤثر عملدرآمد بدستور ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، خصوصاً نگرانی اور نفاذ کے کمزور نظام کے باعث۔
دوبارہ استعمال کے قابل بنانا کی صنعت پاکستان میں ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگرچہ بعض نجی ادارے اور سماجی تنظیمیں محدود پیمانے پر پلاسٹک ویسٹ کو ری پروسیس کر رہے ہیں، لیکن قومی سطح پر ایک منظم اور مربوط انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اس عمل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں کچرے کی علیحدگی کا باقاعدہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک دیگر کوڑے کے ساتھ مل جاتا ہے، جس سے ری سائیکلنگ کا عمل غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔
ادھر متعدد مقامی و بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیمیں، تعلیمی ادارے، نوجوانوں کے گروپ اور کمیونٹی تنظیمیں عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے مختلف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ “کلین گرین پاکستان” جیسی مہمات اور اسکول و کالج کی سطح پر شعور اجاگر کرنے والے پروگرام ان کوششوں کا اہم حصہ ہیں، جو ملک میں ماحولیاتی احساس کو فروغ دے رہے ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو ایک طویل المدتی، مؤثر اور ہم آہنگ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس میں قانون سازی، ماحولیاتی تعلیم کا فروغ، دوبارہ استعمال کے قابل بنانا صنعت کی معاونت، اور ماحول دوست مصنوعات کو معاشی مراعات فراہم کرنا شامل ہیں۔
اگر انفرادی، سماجی اور حکومتی سطح پر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو پلاسٹک آلودگی مستقبل میں پاکستان کے لیے ایک ہمہ جہت ماحولیاتی، صحت عامہ اور معاشی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ایک جامع اور پائیدار حکمتِ عملی کے تحت اس خطرناک مسئلے کا مؤثر حل تلاش کیا جائے۔