مبشر ندیم
پاکستان کا حالیہ سیاسی منظرنامہ ایک سنگین جمہوری اور آئینی بحران سے دوچار ہے۔ 2024 کے عام انتخابات سے یہ بحران شدت اختیار کر گیا، جہاں عوامی مینڈیٹ کو ایک منظم طریقے سے مسترد کر کے ریاستی بندوبست نے جمہوریت کی روح کو مجروح کیا۔ انتخابی عمل جو کہ کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہوتا ہے، وہ خود عوامی اعتماد کھو بیٹھا ہے۔ ریاست کی تشکیل اور پارلیمانی اختیار کی بنیاد جس “عوام کی رائے” پر ہونی چاہیے، وہی اس پورے نظام میں غیر موجود نظر آتی ہے۔
انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو جو دو تہائی اکثریت ملی، وہ ایک واضح مینڈیٹ تھا۔ مگر ریاستی اداروں کی مداخلت، سیاسی انجینئرنگ اور انتخابی نتائج کی بعد ازاں ترتیب نے ایک نئی پارلیمانی حقیقت تخلیق کی — ایک ایسی حقیقت جو زمینی سچائیوں سے میل نہیں کھاتی۔ آزاد امیدواروں کو دباؤ، مراعات یا دیگر طریقوں سے ایک مخصوص اتحاد میں شامل کر کے اقتدار کی کاغذی اکثریت حاصل کی گئی، جس کا عوامی مینڈیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس اقدام نے نہ صرف انتخابی عمل پر سوالات اٹھا دیے بلکہ جمہوریت کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔
اس غیر فطری بندوبست کا سب سے خطرناک پہلو ایک ایسی پارلیمان کی تشکیل ہے جو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں۔ جب پارلیمان ہی عوام کی رائے کا عکس نہ ہو تو اس کے ذریعے ہونے والی قانون سازی، آئینی ترامیم، بجٹ سازی اور حکومتی فیصلے عوامی اعتماد سے محروم ہوتے ہیں۔ آئین کا تقاضا ہے کہ ریاستی فیصلے عوامی نمائندوں کے ذریعے ہوں، مگر جب وہ نمائندے حقیقی عوامی تائید سے نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی سرپرستی سے آئے ہوں تو اس پارلیمان کا آئینی اور اخلاقی جواز خود بخود سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ نقصان خود آئین اور قانون کی حیثیت کو ہوا ہے۔ جب قانون سازی کے پیچھے عوام کی تائید نہ ہو، اور آئینی ترامیم مخصوص طبقات کے مفاد میں ہوں، تو پھر آئین محض طاقتوروں کا آلہ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں منتخب نمائندے نہیں بلکہ منتخب کردہ افراد قانون سازی کریں، وہاں قانون کا وقار اور آئینی روح دونوں مجروح ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ جمہوریت کے لبادے میں آمریت نافذ ہو چکی ہے، جہاں آئین صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے۔
موجودہ نظام کی قانونی اور اخلاقی بنیادیں اس وقت ہل چکی ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کی نفی، ادارہ جاتی مداخلت، اور غیر نمائندہ پارلیمان کے ہوتے ہوئے ریاستی نظم و نسق کو جمہوری کہنا حقائق سے انحراف ہے۔ اگر نظام میں عوام کی رائے کو کوئی حیثیت نہیں، تو پھر بہتر یہی ہے کہ کھل کر مان لیا جائے کہ ہم ایک آئینی جمہوریت نہیں بلکہ ایک “انتظامی آمریت” کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جہاں قانون صرف طاقتور کے حق میں بولتا ہے اور آئین صرف مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس بحران کا حل محض وقتی اصلاحات سے ممکن نہیں۔ یہ وقت ایک نئے عمرانی معاہدے، شفاف انتخابی نظام، اور اداروں کی آئینی حدود کے تعین کا ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوریت کو بچانا ہے، تو عوام کے ووٹ کی حرمت کو یقینی بنانا ہوگا۔ وگرنہ یہ نظام نہ صرف اپنی ساکھ کھو دے گا بلکہ ریاست کی وحدت اور بقا بھی دائو پر لگ جائے گی۔