پاکستان کی معیشت اور دوا ساز صنعت: امکانات اور راستے

[post-views]
[post-views]

پاکستان اس وقت ایک نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ ملکی معیشت کو درپیش مالی مسائل، زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی، تجارتی خسارے اور درآمدات پر انحصار نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایسے میں ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے، صنعتی شعبے کو فروغ دیا جائے اور درآمدات کو محدود کیا جائے۔

دوا ساز صنعت، جو کہ اب تک حکومتی پالیسیوں میں خاص توجہ کی محتاج رہی ہے، پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ملک کی صحت عامہ کی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ برآمدات میں اضافہ کر کے زرمبادلہ کے حصول کا بھی وسیع ذریعہ بن سکتی ہے۔

تاہم، اس صنعت کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک موجودہ ٹیکس نظام ہے جو سرمایہ کاری اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پہلے جہاں دوا ساز کمپنیوں کو صرف معمولی شرح پر ٹیکس دینا ہوتا تھا، اب انہیں منافع پر کافی زیادہ ٹیکس اور اضافی “سپر ٹیکس” بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف منافع کم ہوتا ہے بلکہ نئی سرمایہ کاری کی ترغیب بھی متاثر ہوتی ہے۔

پاکستان میں کمپنیوں پر لگنے والا کارپوریٹ ٹیکس بھی دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک منفی عنصر ہے۔ مزید برآں، سیلز ٹیکس ریفنڈ کی فراہمی میں تاخیر نے دوا ساز صنعت کے نقدی بہاؤ کو شدید متاثر کیا ہے، جو کاروبار کے لیے نقصان دہ ہے۔

تحقیقی فنڈز اور مزدوروں کے فلاحی فنڈز کا غیر موثر استعمال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فنڈز اگر مناسب طریقے سے استعمال ہوں تو صنعت کی ترقی میں نمایاں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

ان مسائل کے حل کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوا ساز صنعت کی برآمدات میں اضافے پر ٹیکس میں مناسب رعایت دی جائے تاکہ کمپنیاں اپنی پیداوار بڑھانے اور نئی منڈیوں میں قدم رکھنے کی ترغیب حاصل کریں۔ اس کے علاوہ، پلانٹس کی اپگریڈیشن اور عالمی معیار کی تکمیل کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری پر آسانیاں اور ٹیکس کی چھوٹ دی جانی چاہیے تاکہ صنعت عالمی مقابلے کے قابل بن سکے۔

اور اس کے علاوہ، برآمد کی ہوئی آمدنی پر اضافی ٹیکس نہ لگایا جائے تاکہ برآمدات کو بڑھاوا دیا جا سکے اور منافع بخش برآمدات کو نقصان نہ پہنچے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو بھی کم کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے برابر آ جائے اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔

ٹیکس کی ادائیگی میں اضافی رقم کی منتقلی کا دورانیہ بڑھایا جائے تاکہ تحقیق و ترقی میں طویل مدتی سرمایہ کاری کو سہارا ملے۔ اس کے ساتھ پیشگی ٹیکس کی ادائیگی کے بعد مکمل چھوٹ کی بحالی کی جائے تاکہ کمپنیوں کے نقد بہاؤ میں آسانی ہو۔

دوا ساز مصنوعات اور ان کے پیکنگ کے مواد پر سیلز ٹیکس نہ لگایا جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آئے اور صنعت مستحکم ہو۔ تحقیقی فنڈز اور مزدوروں کے فلاحی فنڈز کو براہ راست کمپنیوں کو خرچ کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ ان فنڈز کا مؤثر اور شفاف استعمال ممکن ہو۔

دوا ساز صنعت محض دوائیں بنانے تک محدود نہیں بلکہ یہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے، زرمبادلہ حاصل کرنے اور ملک کی صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پرعزم ہو کر ایسے اقدامات کرے جو صنعت کو ترقی کے قابل بنائیں۔

یہ تجاویز صرف اصلاحات نہیں بلکہ پاکستان کی صنعتی خود کفالت اور معیشت کی مضبوطی کے لیے لازمی اقدامات ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک متحرک، حوصلہ افزا اور منصفانہ ٹیکس نظام قائم کیا جائے جو دوا ساز صنعت سمیت تمام صنعتی شعبوں کو فروغ دے سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos