پاکستان کا موجودہ اقتصادی بحران اور ٹیکس نظام کی اصلاح کی ناگزیر ضرورت

ظفر اقبال

پاکستان کو درپیش مسلسل اقتصادی عدم استحکام اس وقت تک مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کے گہرے نقائص سے بھرپور ٹیکس نظام کا سنجیدہ تجزیہ اور بنیادی اصلاح نہ کی جائے۔ موجودہ ٹیکس نظام جسے نااہلی، ناانصافی، بگاڑ، اور نظامی نابرابری نے گھیر رکھا ہے، قومی معیشت کی ترقی میں سب سے بڑی ساختی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ نظام صرف ایک معمولی مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی وجہ ہے جو عوامی قرضے میں بے پناہ اضافے، مسلسل بجٹ خساروں، اور ادائیگیوں کے توازن کے بار بار بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔ یہی مالیاتی کمزوریاں پاکستان کو دیرپا معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے حصول سے روکتی ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی کڑی نگرانی میں حکومت نے اب ٹیکس پالیسی کو روایتی اخراجات کے بجائے فوری ریونیو اکٹھا کرنے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، تاکہ معیشت کو استحکام دیا جا سکے، مالیاتی نظم و ضبط قائم ہو، اور جاری سات ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام سے وابستہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔

آئی ایم ایف کی زیر نگرانی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ سالانہ محصولات کے جارحانہ اہداف حاصل کرے تاکہ بنیادی بجٹ سرپلس پیدا کیا جا سکے، جو بین الاقوامی قرض دہندگان سے مزید مالی امداد کے لیے ضروری شرط ہے۔ اس مقصد کے تحت، ایف بی آر نے رواں مالی سال میں تقریباً 1.3 ٹریلین روپے کے نئے ٹیکسز نافذ کیے، جو زیادہ تر پہلے سے رجسٹرڈ اور رسمی شعبوں کے ٹیکس دہندگان پر عائد کیے گئے، جن میں تنخواہ دار طبقہ اور کارپوریشنز شامل ہیں۔ یہ طبقے پہلے ہی غیر متناسب طور پر بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔

اس محدود ٹیکس بنیاد پر حد سے زیادہ انحصار ایک سنگین حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے: سیاسی قیادت طاقتور طبقوں — جیسے کہ ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، اور زراعت — کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانے سے قاصر یا غیر مائل نظر آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں باقاعدہ ٹیکس دہندگان کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے، وہیں بااثر اور مراعات یافتہ طبقے معمولی مالیاتی احتساب کے ساتھ آزادانہ کام کرتے رہتے ہیں۔

یہ صورت حال پاکستان کے سیاسی معیشتی ڈھانچے کی ایک پرانی خرابی کو ظاہر کرتی ہے — یعنی ریاست کی اشرافیہ سے ٹیکس وصولی میں ناکامی یا عدم دلچسپی۔ سیاسی مصلحت اور سرپرستی پر مبنی نظام نے طویل عرصے سے معیشت کے بڑے شعبوں کو ٹیکس سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ اگرچہ یہ شعبے قومی آمدن کا بڑا حصہ رکھتے ہیں، لیکن ان پر یا تو بہت کم ٹیکس عائد کیا جاتا ہے یا مکمل چھوٹ حاصل ہے۔اس کے نتیجے میں، حکومت بارہا تنخواہ دار افراد اور رجسٹرڈ کاروباروں سے آمدن کے خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے آمدنی میں عدم مساوات بڑھتی ہے اور عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ یہ رجعت پسند حکمتِ عملی نہ صرف قانون پر عمل کرنے والوں پر غیر منصفانہ بوجھ ڈالتی ہے بلکہ رسمی معیشت اور پیداواری سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یوں معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی دائرے میں ہی رہتا ہے، جہاں ٹیکس چوری عام ہے۔

اس غیر متوازن ٹیکس نظام کے معیشتی کارکردگی اور سماجی مساوات پر اثرات نہایت گہرے اور منفی ہیں۔ ایک منصفانہ اور ترقی پسند ٹیکس نظام کا تقاضا ہے کہ مالی وسائل رکھنے والے افراد قومی آمدن میں زیادہ حصہ ڈالیں۔ لیکن پاکستان میں ٹیکس کا موجودہ ماڈل بالواسطہ ٹیکسوں پر منحصر ہے، جبکہ دولت، زمین، اور سرمایہ جاتی منافع پر براہِ راست ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ نظام نہ صرف آمدن کی از سرِ نو تقسیم میں ناکام ہے بلکہ پیداوار اور سرمایہ کاری کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ اس سے کاروباری رجحان کی حوصلہ شکنی، وسعت پذیری میں کمی، اور وسائل کی غلط تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ غیر رسمی شعبے کے کاروباری افراد، جو قواعد و ضوابط سے آزاد ہیں، اُن کاروباروں پر برتری حاصل کر لیتے ہیں جو ٹیکس اور دیگر تقاضے پورے کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اقتصادی جمود، بیرونی قرض پر انحصار، اور عام شہریوں میں انصاف کے فقدان کا بڑھتا ہوا احساس ہے۔

ایف بی آر کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ٹیکس انتظامیہ میں اصلاحات کی کوششیں اگرچہ جاری ہیں، لیکن انہیں ادارہ جاتی اور سیاسی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال، آڈٹ کے خودکار طریقہ کار، اور تھرڈ پارٹی ڈیٹا کے ذریعے نگرانی کو بطور حل تجویز کیا گیا ہے، مگر یہ اقدامات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کی کمی، انتظامی بدعنوانی، اور کاروباری طبقے کی مزاحمت ان اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان، سیمنٹ ساز ادارے، اور تھوک فروش ان اقدامات کے خلاف شدید مزاحمت کر چکے ہیں، جس سے ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ اور مؤثر نفاذ کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

انتظامی اصلاحات سے آگے، ٹیکس نظام کی اصلاح کے لیے اخلاقی جواز بھی انتہائی مضبوط ہے۔ ایک منصفانہ ٹیکس نظام صرف معیشتی ترقی کے لیے ہی نہیں بلکہ جمہوری احتساب اور سماجی یکجہتی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ بار بار تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس عائد کرنا، بغیر اس کے کہ دولت مند اور کم ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے، نہ صرف سماجی ناہمواری کو گہرا کرتا ہے بلکہ ریاست کی ساکھ کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اگر حکومت واقعی متوسط اور کم آمدنی والے گھرانوں کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے بااثر مگر غیر رجسٹرڈ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ ٹیکس چوری پر مؤثر کارروائی اور قانون کا یکساں نفاذ، عوامی اعتماد کی بحالی اور ٹیکس دہی کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹیکس کے بوجھ کو منصفانہ انداز میں تقسیم کر کے ریاست تعلیم، صحت، اور غربت کے خاتمے جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے وسائل پیدا کر سکتی ہے، جو اس وقت شدید طور پر نظر انداز کیے گئے ہیں۔

مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے، پاکستان کی مالیاتی خود کفالت اور جامع ترقی کی راہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ٹیکس پالیسی میں جامع اور ساختی اصلاحات کی جائیں۔ ان اصلاحات میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، غیر ضروری چھوٹ ختم کرنا، اور بالواسطہ سے براہِ راست ٹیکس کی طرف منتقلی شامل ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ٹیکس انتظامیہ کو مضبوط بنانے، صلاحیت سازی، خودکار نظام رائج کرنے، اور بدعنوانی کے خاتمے جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ ان اصلاحات کی کامیابی سیاسی اتفاق رائے اور عوامی حمایت سے مشروط ہے، جس کے لیے شفاف پالیسی سازی اور منصفانہ نفاذ لازمی ہے۔ نیز، وفاق اور صوبوں کے درمیان بہتر رابطہ اور ہم آہنگی ایک مربوط اور مؤثر ٹیکس نظام کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے، جو ٹیکس چوری کو روکے اور آمدن کے ضیاع کو کم کرے۔

نتیجہ یہ کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں سطحی یا جزوی اصلاحات ناکافی ہوں گی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تحت جاری مالیاتی ایڈجسٹمنٹ پروگرام ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی کہ طویل عرصے سے مؤخر کی گئی اصلاحات کو نافذ کیا جائے۔ اگر حکومت اشرافیہ کے مفادات کا سامنا کرے، انصاف کو ترجیح دے، اور ادارہ جاتی صلاحیت کو مستحکم کرے تو ایک زیادہ منصف، مؤثر، اور پائیدار مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، پاکستان بحران اور بحالی کے درمیان ہی جھولتا رہے گا اور وہ مسلسل، وسیع البنیاد ترقی حاصل نہیں کر پائے گا جس سے عوام کی زندگیوں میں حقیقی بہتری آ سکے۔ ٹیکس اصلاحات کا وقت آ چکا ہے—کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی معاشی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos