ظفر اقبال
پاکستان کے ٹیکس نظام کے حالیہ اعداد و شمار ایک پریشان کن حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سال دائر کی گئی 55 لاکھ ٹیکس ریٹرنز میں سے تقریباً 17 لاکھ افراد — یعنی ہر تین میں سے ایک — نے اپنی قابلِ ٹیکس آمدن “صفر” ظاہر کی۔ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ان بے شمار ’’خالی ریٹرنز‘‘ کو ایک انتظامی چیلنج قرار دیا ہے، لیکن اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے — یہ ہمارے ٹیکس نظام کی ساخت اور فلسفے کی کمزوری کو بے نقاب کرتا ہے۔
موجودہ نظام کا مقصد حقیقی آمدن حاصل کرنا نہیں بلکہ رسمی شرکت کو ترجیح دینا ہے — یعنی قانون کی تکمیل کے لیے فارم جمع کرانا، چاہے حقیقی حصہ داری نہ ہو۔ مختلف حکومتوں نے ایف بی آر کی ’’ایکٹو ٹیکس دہندگان فہرست‘‘ میں شامل ہونے کو معاشی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے لازمی قرار دے دیا ہے۔ جو لوگ ریٹرن نہیں جمع کراتے، ان پر بینک لین دین، جائیداد کی خرید و فروخت اور گاڑیوں کی رجسٹریشن پر اضافی ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بے شمار افراد — جن پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، جیسے پنشنرز، گھریلو خواتین، طلبہ اور بیرونِ ملک پاکستانی محض ان جرمانوں سے بچنے یا مالی خدمات تک رسائی برقرار رکھنے کے لیے ’’خالی ریٹرنز‘‘ جمع کراتے ہیں۔
یہ نظام دراصل ٹیکس ریٹرن کو تعمیل کے مترادف سمجھتا ہے، چاہے آمدن ہو یا نہ ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے پاس ایک بھاری فہرست موجود ہے جو سرگرمی تو ظاہر کرتی ہے مگر احتساب نہیں۔ حقیقی ٹیکس دائرہ وسیع کرنے کے بجائے ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کو ایک دفتری رسم بنا دیا ہے — ایک سطحی کامیابی جو نہ مالی وسائل بڑھاتی ہے اور نہ مالی نظم و ضبط کو مضبوط کرتی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے ان ’’خالی ریٹرنز‘‘ کے آڈٹ کا اعلان صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ان افراد کا آڈٹ جنہوں نے کوئی آمدن ظاہر نہیں کی، انتظامی وسائل کا ضیاع ہے۔ ترجیح ان کمزور طبقوں کی نگرانی نہیں بلکہ ان طاقتور طبقوں کا احتساب ہونا چاہیے — جیسے صنعتکار، تاجِر اور جائیداد کے بڑے سرمایہ کار — جو منافع کم ظاہر کرتے ہیں یا مکمل طور پر ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں۔ پاکستان کے مالی بحران کا حل کمزوروں پر دباؤ ڈالنے میں نہیں بلکہ ان بااثر طبقات کا محاسبہ کرنے میں ہے جو قانونی خلا اور سیاسی سرپرستی کے سہارے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
آمدن کی تقسیم میں عدم توازن واضح ہے۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محض چھ لاکھ تنخواہ دار افراد نے 130 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ اس کے مقابلے میں برآمدکنندگان نے 45 ارب، تھوک فروشوں نے 14.6 ارب، خوردہ فروشوں نے 11.5 ارب، اور جائیداد کے شعبے نے صرف 60 ارب روپے ادا کیے۔ حالانکہ یہ شعبے اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں، ان کا ٹیکس حصہ محض چند فیصد ہے، جبکہ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس تنخواہ سے براہِ راست کاٹا جاتا ہے۔
یہ فرق صرف کمزور عملدرآمد نہیں بلکہ دانستہ سیاسی سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ڈھانچہ ایسا بن چکا ہے جو شفافیت کو سزا اور چھپاؤ کو انعام دیتا ہے۔ جو ٹیکس بچا سکتے ہیں وہ بنا خوف کے ایسا کرتے ہیں، اور جو قانون پر عمل کرتے ہیں، وہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ، جو پہلے ہی مہنگائی اور جمودِ آمدن سے متاثر ہے، ریاست کی نااہلی کی قیمت ادا کرتا ہے، جبکہ ٹیکس چور بیوروکریٹک سستی اور سیاسی پشت پناہی کے باعث مزید پھلتے پھولتے ہیں۔
توازن بحال کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے ٹیکس فلسفے کی بنیادوں پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ جرمانوں اور کاغذی کاروائی سے تعمیل کرانے کے بجائے، ایف بی آر کو مؤثر عملدرآمد، ڈیٹا پر مبنی نگرانی، اور سادہ و قابلِ فہم نظام کی طرف جانا چاہیے۔ جدید ڈیجیٹل نظام، ادارہ جاتی ربط، اور شفاف رپورٹنگ کے ذریعے ٹیکس چوری کو کہیں بہتر طور پر روکا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ حقیقی ٹیکس دائرہ وسیع کرنے کے لیے سیاسی عزم درکار ہے — ان طاقتور شعبوں کے خلاف جو دہائیوں سے رعایتوں اور کمزور دستاویزات کے ذریعے بچتے آئے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو ٹیکس میں انصاف کے تصور پر بھی نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جو زیادہ کماتے ہیں، وہ تناسباً زیادہ ٹیکس ادا کریں۔ مگر ریاست اب بھی کھپت اور درمیانے طبقے پر زیادہ بوجھ ڈال رہی ہے، جبکہ بااثر طبقوں کو رعایت حاصل ہے۔ اگر ڈھانچہ درست نہ کیا گیا تو یہ نظام دیانت اور عوامی اعتماد دونوں کو کھو دے گا۔ ٹیکس صرف آمدن کا ذریعہ نہیں بلکہ انصاف کا پیمانہ ہے۔
آخرکار، ’’خالی ریٹرنز‘‘ کی کثرت ایک گہرے مالی مرض کی علامت ہے — ایسا نظام جو معاشی اصلاحات کے بجائے صرف رسمی تعمیل پر قائم ہے۔ جب تک پاکستان علامتی فارم جمع کرانے سے ہٹ کر حقیقی مساوات کی طرف نہیں بڑھے گا، اس کا مالی نظام کاغذوں میں فعال مگر حقیقت میں بے جان رہے گا۔ پائیدار حکمرانی کا مستقبل ایسے نظام میں ہے جو ایمانداری کو انعام دے، چوری کو نہیں؛ جو شہریوں کو طاقتور بنائے، بوجھ تلے نہ دبائے؛ اور جو ٹیکس کو اجتماعی ذمہ داری سمجھے، نہ کہ چُنیدہ سزا۔













