پاکستان کی وفاقی حکومت نے بالآخر پنشن اصلاحات کا وہ قدم اٹھا لیا ہے جس کی تجویز برسوں سے دی جا رہی تھی مگر کوئی حکومت اس پر عمل کرنے کی ہمت نہیں کر سکی۔ اب حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے پنشن کا نیا ڈیفائنڈ کنٹریبیوٹری اسکیم نافذ کر دیا ہے۔ اس کے تحت وفاق کی پنشن میں حصہ 20 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ ملازمین اپنی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ لازمی طور پر جمع کرائیں گے۔
یہ اصلاح بظاہر ملازمین کے لیے نقصان دہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد مالی تحفظ میں کمی آسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے پاس اب یہ بوجھ اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اگر حکومت یہ قدم نہ اٹھاتی تو آئندہ دہائیوں میں پنشن واجبات ملکی بجٹ کو مکمل طور پر جکڑ لیتے۔
یوٹیوب پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
پرانے نظام میں حکومت مکمل ذمہ دار تھی — یعنی جتنے بھی ملازمین ریٹائر ہوتے، ان کی پنشن بلاشرط خزانے سے ادا کی جاتی۔ یہ نظام ’’ڈیفائنڈ بینیفٹ اسکیم‘‘ کہلاتا تھا اور دراصل ایک کھلا چیک تھا جو ہر سال قومی خزانے پر بوجھ بن رہا تھا۔ اب نئے ’’کنٹریبیوٹری‘‘ نظام میں ملازمین اور حکومت دونوں حصہ ڈالیں گے تاکہ ریٹائرمنٹ فنڈ خود کفیل ہو سکے۔
ایکس پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
حکومت نے ملازمین کو ایک اضافی سہولت بھی فراہم کی ہے — موت اور معذوری کی لازمی انشورنس۔ یہ ان خاندانوں کے لیے کسی حد تک تحفظ کا باعث ہے جو ملازمت کے دوران کسی سانحے کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ اسکیم یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی ہونے والے تمام وفاقی سول ملازمین اور رواں مالی سال کے آغاز سے بھرتی ہونے والے فوجی اہلکاروں پر لاگو ہوگی۔
فیس بک پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
یہ تبدیلی صرف ملکی ضرورت نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا نتیجہ بھی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف طویل عرصے سے پاکستان کو متنبہ کر رہے تھے کہ پنشن واجبات اب ایک خطرناک مالیاتی خطرہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں صرف وفاقی سطح پر پنشن کا خرچ 29 فیصد بڑھ کر 821 ارب روپے سے بڑھ کر 1.055 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔
ٹک ٹاک پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
اعدادوشمار کے مطابق، فوجی پنشن میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اب 742 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، جبکہ سول پنشن میں 6.6 فیصد اضافہ ہو کر 228 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ اصل مالی دباؤ فوجی پنشن کے شعبے میں ہے، اور جب تک وہاں اصلاحات نافذ نہیں ہوتیں، مجموعی بچت جزوی رہے گی۔
انسٹاگرام پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
رپورٹس کے مطابق دفاعی اہلکاروں کے لیے اسکیم کے نفاذ میں تاخیر کی ایک وجہ مئی میں بھارت کے ساتھ ہونے والی سرحدی جھڑپ بھی تھی، جس کے بعد حکومت نے فوجی مراعات سے متعلق معاملات کو وقتی طور پر مؤخر کیا۔ تاہم اگر ان اصلاحات کو دفاعی شعبے تک وسعت نہیں دی جاتی تو اصل مقصد — یعنی پنشن کے بوجھ میں کمی — حاصل نہیں ہو سکے گا۔
واٹس ایپ چینل پر ری پبلک پالیسی فالو کریں
اصلاحات کے ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت نے اپنی مالی ذمہ داری کم کر لی ہے مگر ملازمین کو مستقبل میں غیر یقینی صورتِ حال میں دھکیل دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر نظام کو اصلاح کے بغیر چھوڑ دیا جاتا تو یہی بوجھ آنے والی نسلوں کے کندھوں پر منتقل ہوتا۔
ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج اب یہ ہے کہ وہ اس نئے فنڈ کو شفافیت، پیشہ ورانہ سرمایہ کاری اور ملازمین کے اعتماد کے ساتھ چلائے۔ اگر فنڈ کی نگرانی غیر شفاف ہوئی تو یہ اصلاح مالیاتی کامیابی کے بجائے سیاسی ناکامی بن سکتی ہے۔
مزید یہ کہ یہ اصلاح صرف وفاق تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کے پنشن واجبات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر صوبوں نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ان کے بجٹ بھی پنشن ادائیگیوں میں دب جائیں گے، اور ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے۔
یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ پاکستان میں پنشن کے موجودہ نظام نے مالیاتی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب جبکہ نیا نظام نافذ ہو چکا ہے، اس کی کامیابی اس پر منحصر ہوگی کہ حکومت کس حد تک مستقل مزاجی، شفافیت اور احتساب کے ساتھ اس کو نافذ کرتی ہے۔
یہ اصلاح وقتی طور پر سخت سہی، مگر مستقبل کے لیے امید کی کرن ہے۔ اگر ریاست اس نئے ماڈل کو دیانتداری سے چلائے تو یہ نہ صرف بجٹ کے دباؤ کو کم کرے گا بلکہ ملازمین کے لیے ایک پائیدار ریٹائرمنٹ تحفظ فراہم کرے گا۔
آخرکار، پنشن اصلاحات کا مقصد کسی طبقے کو سزا دینا نہیں بلکہ ایک ایسے متوازن مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل ہے جہاں ریاست اور عوام دونوں اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں پالیسی، احتساب اور معاشی تدبر ایک دوسرے سے جڑتے ہیں — اور یہی پاکستان کے معاشی مستقبل کی بنیاد ہے۔