ادارتی تجزیہ
پاکستان کے موجودہ سیاسی تعطل پر اکثر مبصرین یہ رائے دے رہے ہیں کہ اصل تنازع دو فریقوں کے درمیان ہے — ایک طرف ریاستی اسٹیب اور دوسری طرف عمران خان۔ بیشتر تجزیہ نگار ان دونوں کے درمیان مفاہمت کو سیاسی نظام کے تسلسل کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، یہ تجزیہ ایک اہم حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے: اس سیاسی کشمکش کا تیسرا اور سب سے اہم فریق پاکستانی عوام ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ عوام نے صرف ردعمل دینے کے بجائے خود سیاسی بیانیے کو تشکیل دینا شروع کیا ہے۔ چاہے وہ عوامی احتجاج ہوں، عدالتی مقدمات کا عوامی شعور ہو یا سوشل میڈیا پر اظہار رائے، عوام نے جمہوری حقِ رائے دہی، قانون کی حکمرانی اور عوامی خودمختاری کا مطالبہ پوری قوت سے سامنے رکھا ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی خواہش نہیں، بلکہ آئینی خودارادیت کا اعلان ہے۔
روایتی سوچ، جس کے مطابق طاقت کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں، اب عوام کے شعور کے سامنے بے معنی ہو چکی ہے۔ اگر اس بحران کا حل بھی کسی خفیہ مفاہمت یا “بیک ڈور” معاہدے کی صورت میں نکالا گیا تو وہ نہ صرف ناقابل قبول ہوگا بلکہ ریاستی بحران کو مزید بڑھا دے گا۔
آج اصل مفاہمت اسٹیب اور کسی سیاسی رہنما کے درمیان نہیں، بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان ہونی چاہیے۔ پاکستانی عوام اب نہ مسلط کردہ حکومتیں مانتے ہیں، نہ ماورائے آئین اقدامات۔ ان کا مطالبہ واضح ہے: انہیں حق دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندے خود منتخب کریں اور نظامِ حکومت کو اپنے ووٹ اور آئینی اختیار سے جوابدہ بنائیں۔
یہ لمحہ پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ سیاسی استحکام صرف اسی صورت ممکن ہے جب عوام کے مینڈیٹ کو اولیت دی جائے۔ اب مفاہمت کا وقت نہیں، جمہوریت کے نفاذ کا وقت ہے۔