جنرل اسمبلی نے1977 میں قراردادنمبری بتیس/چالیس بی کے تحت 29 نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا ۔ اسی دن، 1947 میں قرارداد نمبری ایک سو اکیاسی (دو)کے تحت جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم پر قرارداد منظور کی۔ یکم دسمبر 2005 کو جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کے فلسطینی حقوق کے ڈویژن سے 29 نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منانے کی درخواست کی۔ یہ دن ہر سال فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں 29 نومبرکواقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مبصر مشن کے تعاون سے فلسطینیوں کے حقوق پر سالانہ ثقافتی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ فلسطینی عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے عالمی دن کے حوالے سے قرارداد میں رکن ممالک کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور یوم یکجہتی کو منانے کے لیے وسیع تر حمایت اور تشہیر جاری رکھنے پر زور دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے فوراً بعد فلسطین کا سوال اقوام متحدہ کے سامنے لایا گیا۔ ایک بین الاقوامی مسئلہ کے طور پر مسئلہ فلسطین کی ابتداءپہلی جنگ عظیم کے اختتام پر پیش آنے والے واقعات کے بعد ہوئی۔ 1947ء میں اقوام متحدہ نے مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور آج بھی اس کام سے نبرد آزما ہے۔ مسئلہ فلسطین اس بات کی عکاسی کر رہا ہےکہ عالمی طاقتوں کا نظام کس طرح کام کرتا ہے۔
مسئلہ فلسطین کو مستقل طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ وقتی طور پر پُر امن قرارداد جاری کی جائے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اس مسئلے کو محض پُر امن قراردادوں کےذریعے حل کرنے کی کوشسش کی لیکن اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اسرائیل کی حمایت کرتی ہے جوکہ اکثر انسانی حقوق اور بین الاقوامی سرحدی قوانین کی خلاف ورزیوں کا ارتکا ب کرتا ہے ۔ فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے پوری دنیا کو متحد ہونا چاہیے اوراس دیرینہ مسئلہ کا حل ترجیحی بنیاوں پر تلاش کرنا چاہیے۔ اس مسئلہ کا مستقل حل خطے اور دنیا کے امن سے جڑا ہے۔
بیت المقدس جو اسلام کا قبلہ اول تھا عالم اسلام اس کے لیے بہت عقیدتمندانہ جذبہ رکھتے ہیں ۔اسی جذبہ کی بدولت او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم او آئی سی کی کارکردگی متعدد وجوہات کی بنا پر فلسطین کے لیے معمولی رہی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کی حمایت کی ہے۔ پاکستانی عوام کے دل فلسطین کے مسلمانوں سے مذہب کی بنیاد پرجُڑے ہوئے ہیں ۔ اس لیے عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ اس تنازعہ کو اقوام متحدہ کی خواہشات اور قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ محض پرُامن قرارداد اس مسئلہ کا حل نہیں۔