مصنف: طاہر مقصود
مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں اور ریپبلک پالیسی میں بطور چیف ایڈیٹر اردو خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں خاص طور پر لاہور میں لوگ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے اور مشتعل احتجاجی اشخاص نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے بقول احتجاج کے دوران تقریباً چھ سو کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا ڈیڑھ سو کے قریب پولیس افسران (کانسٹیبل سے ڈی آئی جی تک) مضروب ہوئے۔
جماعت اسلامی کے رُکن پارلیمنٹ نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ملک بھر میں سنتالیس افراد کے ہلاک ہونے کا بتایا۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروسز کو بند کردیا گیا جس سے یقیناً مزید کروڑوں روپوں کا مالی نقصان مملکت خداداد کو برداشت کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس نقصان سے بچاجاسکتا تھا یا اس میں کمی ممکن تھی؟
پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دس سال کے دوران لاہور میں ہونے والے احتجاجی اجتماعات کا جائزہ لیاجائے تو واضع ہوتا ہے کہ لبرٹی چوک لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکنان ضرور جمع ہوتے ہیں اور اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا۔ جہاں پر لوگوں کو اُکسا کر شیرپاؤ پل پر لے جایا گیا اور کینٹ ایریامیں واقع جناح ہاؤس پر حملہ کرکے اس تاریخی ورثہ کو نہ صرف لوٹ لیا گیا بلکہ آگ لگا کر تباہ و برباد کردیا گیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی گرفتاری اور جناح ہاؤس کی تباہی کا درمیانی ٹائم تقریباً چھ، سات گھنٹے پرمحیط ہے۔ اس سارے عرصہ کے دوران ضلعی پولیس کی سیکورٹی برانچ اور اسپیشل برانچ کا عملہ کہاں تھا یہ جاننا لاہور پولیس کے اعلیٰ حکام کا کام ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ڈیوٹی پرموجو ہوتے اور اُنہوں نے متعلقہ حکام کو بروقت اطلاع کردی ہوتی کہ شرپسند عناصر لوگوں کو ورغلا کر فساد کرانا چاہتے اور املاک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو یقیناً اس بڑے نقصان سے بچا جاسکتا تھا کیونکہ لاہور پولیس کے پاس وسائل کی کمی نہ ہے اور پولیس لائنز میں سینکڑوں جوانوں پر مشتمل ”اینٹی رائیٹ فورس“ ہروقت موجود ہوتی ہے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر پاکستان رینجرز اور پارک آرمی کو بھی بلوایا جاسکتا تھا۔ علاوہ ازیں کینٹ ایریا میں فوج کی طرف سے ”کوئیک ریسپانس موبائل یونٹ“ بھی تعینات ہوتے ہیں مگر ان کااستعمال نہ کیا گیا تو سمجھاجاسکتا ہے کہ پولیس کے ذمہ داران بروقت ایکشن لینے میں ناکام رہے، ورنہ یہ ممکن تھا کہ لبرٹی چوک سے جناح ہاؤس تک تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلہ میں پرتشدد ہجوم کوراستے میں منتشر کیاجاسکتا تھا۔ اس طرح لاہور پولیس کی نہ صرف یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے بلکہ آپریشنل ناکامی بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ متعلقہ حکام کی باقاعدہ انکوائری کروائی جائے گی۔
اسی دوارن ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک اے ایس پی رینک کے نوجوان اور اور پڑھے لکھے پی ایس پی گروپ سے تعلق رکھنے و الے افسر نے اپنے سے کم ترعہدہ کے پولیس کانسٹیبل کو چھڑی سے مارا۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی سوشل میڈیا پر تبصرے شروع ہوگئے کہ اگر کوئی ڈی ایس پی رینک کا افسر ایسی حرکت کرتا تو اسے معطل کردیاجاتا معاملہ چونکہ اے ایس پی سے متعلقہ ہے اس لیے نتیجہ صلح صفائی کی صورت میں ہی آئے گا۔
اور پھر اگلے ہی روز انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور صاحب کاویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر دیکھاگیا اس ویڈیو پیغام کے مطابق واقع کی انکوائری کروائی گی تو دونوں لوگ یعنی اے ایس پی اور کانسٹیبل غلطی پر تھے۔ البتہ اے ایس پی کو یہ اختیار نہ تھا کہ کانسٹیبل کو گالی دے یا چھڑی سے مارے مزید یہ بتلایا کہ اے ایس پی نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور اپنے رویہ پر معافی مانگی۔آئی جی صاحب نے مزید کہا کہ یہ واقع اے ایس پی کی لیڈر شپ کی ناکامی ہے۔
اس اے ایس پی کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس نے راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی اور اس وقت کے سی پی او راولپنڈی نے بھی صلح ہی کروائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اے ایس پی صاحب ناقابل اصلاح ہیں اور انسپکٹر جنرل پولیس یقیناً اس افسر کے سروس ریکارڈ میں اس امر کا نوٹ دیں گے۔
ڈاکٹر عثمان انور صاحب انسپکٹر جنرل پولیس اپنی ماتحت پروری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران پولیس فورس کی ویلفیئر کے لیے جو کچھ کیا وہ یقیناًقابل رشک ہے لیکن ابھی کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہر دور میں پولیس ریفارمز کی ضرورت پر زور دیاجاتا رہا ہے اور اس سلسلہ میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک متعدد کمیشن اور کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، لوگوں نے اس پر بہت کام بھی کیا، مگر صرف پولیس کی ”ورکنگ“ اور عوام کے ساتھ رابطہ کی بہتری پر زور دیاجاتارہا ہے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام پولیس کو ایک پولیس بنایاجائے اور ایک قانون کے تابع تمام پولیس ہو۔ اس وقت پولیس کے واضع دو حصے ہیں ایک حصہ ہے جو صوبائی قوانین کے تابع ہے جبکہ دوسرا حصہ یعنی پی ایس پی افسران صوبائی قوانین کے تابع نہ ہیں اور اس بات کا انہیں احساس بھی ہے۔ اس وقت اکثر اضلاع میں ڈسٹرکٹ پولیس افسران گریڈ18 کے افسران ”اون پے سکیل“ پر تعینات ہیں ان افسران کی قابلیت پر تو شبہ نہیں کیاجاسکتا مگر پولیس کے مروجہ قوانین کے خلاف ہے اور اس طرح کی تعیناتیوں کو مختلف اعلیٰ عدالتیں بھی غیرقانونی قرار دے چکی ہیں۔ واحد حل یہ ہے کہ صوبائی پولیس افسران کے لیے گریڈ18 سے آگے ترقی کا راستہ صوبہ کی سطح پر بنایاجائے۔ اس سے نہ صرف سینئر گریڈ کے افسران کی کمی دور ہوگی بلکہ صوبائی پولیس کے افسران زیادہ محنت اور دل جمی سے کام کریں گے اور حالیہ واقعات کے دوران مطیع اللہ خان ڈی پی او میانوالی کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے اپنے ویڈیو پیغام میں خوب سراہا ہے ایسے بہت سے افسران اور بھی صوبائی پولیس میں پیدا ہوجائیں گے۔