مبشر ندیم
پاکستان کی سیاست میں ایک گہرا تضاد برسوں سے جاری ہے۔ ایک طرف سیاسی جماعتیں جمہوریت، عوامی نمائندگی اور نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کے دعوے کرتی ہیں، دوسری طرف انہی جماعتوں پر چند خاندانوں، مالی طور پر طاقتور افراد اور اشرافیہ کا قبضہ نظر آتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف جمہوری ارتقاء کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس نے سیاسی کارکن کے کردار کو بھی محدود کر کے رکھ دیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑی سیاسی تحریک، چاہے وہ تحریکِ پاکستان ہو، بحالیٔ جمہوریت کی کوششیں ہوں یا مارشل لاء کے خلاف جدوجہد، اس کی بنیاد ہمیشہ سیاسی کارکنوں کی قربانیوں اور وابستگیوں پر رہی ہے۔ مگر وقت کے ساتھ انتخابی سیاست میں دولت، تعلقات اور خاندانی پس منظر کو فوقیت ملنے لگی، اور کارکن کا کردار صرف انتخابی مہم، جلسوں اور ووٹروں کو لانے تک محدود ہو کر رہ گیا۔
سیاسی جماعت کسی بھی جمہوریت کا بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ اگر اس اکائی میں شفافیت، میرٹ اور شرکت نہ ہو، تو جمہوریت محض نمائشی نظام بن جاتی ہے۔ جب پارٹی کے اندر ہی فیصلے چند افراد کی صوابدید پر ہوں اور کارکن کو صرف نعرہ لگانے تک محدود رکھا جائے، تو نہ صرف پارٹی کمزور ہوتی ہے بلکہ کارکن میں مایوسی اور بداعتمادی جنم لیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی کارکن صرف پارٹی کے لیے نہیں بلکہ عوام کے جذبات کا عکاس بھی ہوتا ہے۔ وہ عوام کی نبض شناس ہوتا ہے، اس کی تربیت اور شمولیت پالیسی سازی کے عمل کو زمین سے جوڑتی ہے۔ جب عوامی پالیسی صرف ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے چند اشرافیہ کے افراد تیار کریں، تو وہ زمینی حقیقتوں سے کٹ جاتی ہے۔
سیاسی کارکن انتخابی عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ جلسوں کا اہتمام کرتا ہے، ووٹروں کو متحرک کرتا ہے، اور پارٹی کا پیغام عوام تک پہنچاتا ہے۔ لیکن جب انتخابی کامیابی کے بعد عہدے اور وزارتیں صرف مخصوص طبقات کو دی جائیں، تو کارکن کے دل میں محرومی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب پارٹی کی نظریاتی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
جن جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو تنظیمی مواقع دیے، وہ نہ صرف دیرپا کامیاب ہوئیں بلکہ بحرانوں سے بھی بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی، اور ابتدائی دور میں تحریک انصاف کی کامیابیوں کے پیچھے کارکنوں کی شمولیت اور تربیت کا کردار تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ان جماعتوں میں بھی اشرافیہ نے دوبارہ غالب آ کر کارکن کو پیچھے دھکیل دیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی کارکن خود بھی باشعور اور منظم ہو۔ صرف نعروں پر انحصار نہ کرے بلکہ آئینی، سیاسی اور معاشی معاملات کی فہم حاصل کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ پارٹی کے اندرونی ڈھانچے کو سمجھے، تنظیمی تربیت حاصل کرے، پالیسی سازی میں حصہ لے، اور قائدین سے سوال کرنے کا حوصلہ رکھے۔
سیاسی کارکنوں کے لیے چند تجاویز:
سیاسی شعور پیدا کریں: نعروں سے ہٹ کر آئینی، اقتصادی اور پالیسی معاملات کو سمجھیں تاکہ با معنی کردار ادا کیا جا سکے۔
تنظیمی تربیت حاصل کریں: پارٹی کے آئین، تنظیمی ڈھانچے اور انتخابی نظام کو جانیں تاکہ اندرونی فیصلوں میں حصہ لے سکیں۔
اصولی جدوجہد جاری رکھیں: اگرچہ پارٹی اشرافیہ کے قبضے میں ہو، مگر اصولوں پر مبنی جدوجہد جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔
پالیسی سازی میں شامل ہوں: زمینی مسائل کو سمجھ کر پارٹی میں تجاویز دیں اور عوامی ڈسکورس کا حصہ بنیں۔
رابطہ سازی کریں: دیگر کارکنوں کے ساتھ نیٹ ورک قائم کریں، ورکنگ گروپس بنائیں اور اجتماعی طاقت پیدا کریں۔
قیادت سے سوال کریں: کارکن کا حق ہے کہ وہ قیادت سے شفافیت کا مطالبہ کرے اور عہدوں کی تقسیم میں میرٹ پر زور دے۔
پاکستان میں جمہوریت اس وقت ہی مستحکم ہو سکتی ہے جب سیاسی کارکن محض جلسوں کے انتظام تک محدود نہ رہیں بلکہ قیادت، پالیسی اور فیصلہ سازی کے مرکزی کردار بنیں۔ جمہوریت اشرافیہ کی جاگیر نہیں بلکہ عوام کی اجتماعی دانش کا نظام ہے، اور اس دانش کا اصل ترجمان سیاسی کارکن ہوتا ہے۔
جمہوری پاکستان کے لیے سیاسی کارکن کی قیادت ناگزیر ہے۔
مزید تفصیل کے لیے: http://Republicpolicy.com