غربت میں کمی، مگر معیارِ زندگی جوں کا توں

[post-views]
[post-views]

ظفر اقبال

عالمی بینک کی پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ نے ملک کی معیشت کی ایک متضاد تصویر پیش کی ہے: رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن عوام کے معیارِ زندگی میں کوئی واضح بہتری نہیں ہوئی۔ بظاہر یہ تضاد حیران کن لگتا ہے — جب لوگ معاشی دباؤ میں ہیں تو غربت کیسے کم ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب اعداد و شمار کے پرانے اور غیر حقیقی اندازِ پیمائش میں پوشیدہ ہے۔

ویب سائٹ

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی غربت کی شرح 22.2 فیصد تک کم ہوچکی ہے اور بینک کو امید ہے کہ رواں سال یہ شرح کووڈ سے پہلے کی سطح پر واپس آجائے گی۔ مگر اسی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ 3 فیصد کی متوقع ترقی شرح روزگار پیدا کرنے، آمدنی بڑھانے یا غربت کو حقیقی معنوں میں کم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ تضاد دراصل اس حقیقت کا عکاس ہے کہ بینک کا تخمینہ 2019 کے استعمالی ڈیٹا پر مبنی ہے، یعنی وہ وقت جب نہ وبا تھی، نہ مہنگائی کا بحران، اور نہ ہی تباہ کن سیلاب۔ لہٰذا یہ اندازہ آج کے پاکستانی عوام کی حقیقی معاشی حالت کو ظاہر نہیں کرتا۔

یوٹیوب

یہ پرانے اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں قابلِ اعتماد اور تازہ قومی ڈیٹا کی فوری ضرورت ہے۔ جب گھریلو آمدن، روزگار اور اخراجات کے درست اعداد دستیاب نہ ہوں تو پالیسی سازی اندھیرے میں رہ جاتی ہے۔ ترقی کے یہ کاغذی اعداد عوام کی روزمرہ مشکلات — مہنگائی، کمزور خریداری طاقت، اور گرتی سرکاری سہولیات — کو چھپا نہیں سکتے۔

ٹوئٹر

عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی رواں مالی سال میں صرف 3 فیصد رہے گی — جو ترقی پذیر ممالک میں غربت میں حقیقی کمی کے لیے درکار 6 سے 7 فیصد شرح سے بہت کم ہے۔ اس سست رفتاری کی بڑی وجوہات میں بار بار آنے والی قدرتی آفات، خاص طور پر سیلاب، شامل ہیں جنہوں نے کھیت برباد کیے، لوگ بے گھر کیے، اور انفراسٹرکچر تباہ کیا۔ یہ موسمیاتی خطرات وقتی نہیں بلکہ ڈھانچہ جاتی نوعیت کے ہیں، جن کے لیے طویل المدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

فیس بک

پاکستان کو موجودہ معاشی جمود سے نکالنے کے لیے حکومت کو مختصر مدتی اقدامات کے بجائے ایک مضبوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ اس کے لیے ٹیکس نظام کی منصفانہ اصلاح، ٹیرف میں توازن، اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہے۔ بصورتِ دیگر مالی خسارہ بڑھتا جائے گا اور عوامی فلاح کے منصوبے متاثر ہوں گے۔

ٹک ٹاک

اسی طرح موسمیاتی لحاظ سے مضبوط انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ 2022 کے سیلابوں نے 30 ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد کو دوبارہ غربت کی طرف دھکیل دیا۔ پاکستان اب ہر تباہی کے بعد تعمیرِ نو کا متحمل نہیں ہوسکتا؛ اسے نکاسی آب، پانی کے انتظام اور پائیدار زراعت جیسے پیشگی اقدامات میں سرمایہ لگانا ہوگا۔

انسٹاگرام

رپورٹ نے ایک اور کمزوری کی نشاندہی کی ہے — پاکستان کا حد سے زیادہ ترسیلاتِ زر پر انحصار۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی رقوم وقتی ریلیف دیتی ہیں لیکن یہ ملکی پیداواری معیشت کا نعم البدل نہیں۔ اس انحصار نے مقامی مہارت، جدت، اور صنعتی مسابقت کو کمزور کیا ہے۔ حقیقی ترقی اس وقت ممکن ہے جب ملک میں ہی روزگار، صنعت اور اختراعات کو فروغ دیا جائے۔

ویب سائٹ

پاکستان کو اس بحران اور وقتی بحالی کے چکر سے نکلنے کے لیے سیاسی عزم، طویل المدتی وژن اور پائیدار اصلاحات کی ضرورت ہے۔ غربت کے اعداد میں وقتی بہتری ممکن ہے، لیکن حقیقی ترقی تب ہوگی جب عوام کی آمدن، مواقع، اور وقار میں مسلسل بہتری محسوس ہو۔ ملک کا اصل ہدف صرف غربت میں کمی نہیں بلکہ معیارِ زندگی میں اضافہ ہونا چاہیے — اور یہی حقیقی ترقی کی بنیاد ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos