Premium Content

پی پی 118 ٹوبہ ٹیک سنگھ 1کا تجزیہ

Print Friendly, PDF & Email

حلقہ 118 ٹوبہ ٹیک سنگھ 1کا تجزیہ اس لیے پیش کیاجارہا ہے کہ یہ پنجاب کا واحد حلقہ ہے جہاں پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنا اُمیدوار بلے کے نشان پر کھڑا نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حلقہ بندی 2022 کے مطابق اس حلقہ میں رجسٹر ووٹروں کی تعداد 352626ہے۔

حلقہ نواں لاہور، دھرسانا، گوجرہ کی قانون گوئیوں پر مشتمل ہے۔ مزید یہ کہ چک نمبر280جے۔بی، 95جے۔بی،361 جے۔بی، 389جے بی،377 جے۔بی،375جے۔بی، 287 جے۔بی اور 302 جے۔بی کے پٹوار سرکلز پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ میں بنیادی طور پر جاٹ برادری کی اکثریت ہے اور 1985ء سے لے کر آج تک وڑائچ برادران سے کوئی نہ کوئی ایم پی اے بنتا رہا ہے۔
اس وقت بھی بلال اصغر وڑائچ ایم پی اے ہیں جو کہ 2002ء سے مسلسل منتخب ہورہے ہیں۔2023ء کے الیکشنز میں پی ٹی آئی نے اُن کوٹکٹ جاری کیا مگر بعد واپس کرکے حلقہ کو اوپن چھوڑ دیا۔ اس حلقہ میں 2002ء میں بلال اصغروڑائچ نے پاکستان مسلم لیگ جے کی طرف الیکشن لڑا اور اسد زمان چیمہ جوکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اُمیدوار تھا کو ہرایا۔ 2008ء کے الیکشن میں بلال اصغر وڑائچ نے پاکستان مسلم لیگ(ق) کی طرف سے الیکشن لڑتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے عثمان چیمہ کو شکست دی۔ 2013ء کے الیکشن میں بلال اصغر وڑائچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکشن لڑتے ہوئے اسد زمان چیمہ جوکہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے تھے کو شکست دی۔ 2018ء کے جنرل الیکشن میں خالد جاوید وڑائچ اس سیٹ سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور ساتھ ہی ایم این اے کا انتخاب بھی جیت گئے۔

خالد جاوید وڑائچ نے ایم پی اے کی سیٹ خالی کی تو اس کے بھائی بلال اصغر وڑائچ نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہوئے تقریباً55000ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ اسد زمان چیمہ نے پی ٹی آئی کی طرف سے تقریباً 50000ووٹ حاصل کیے۔ اس وقت چونکہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ تو غالب امکان یہی ہے کہ خالد جاوید وڑائچ جوکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایم این اے ہے، اپنے بھائی بلال اصغر وڑائچ کو سپورٹ کرے گا۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

اس کے ساتھ پی ٹی آئی کاووٹ بینک بھی کافی تعداد میں اب بڑھا ہے اور اسد زمان چیمہ کا ذاتی اثر و رسوخ بھی ہے تو یہ باآسانی کہاجاسکتا ہے کہ مقابلہ بلال اصغر وڑائچ اور اسد زمان چیمہ کے درمیان ہی ہوگا۔
بنیادی طور پر دونوں اُمیدواران مختلف پارٹیوں سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ اس لیے کسی بھی اُمیدوار کو پی ٹی آئی کا بنیادی نظریاتی اُمیدوار ماننا حقائق سے چشم پوشی ہوگی۔ بنیادی طور پر اُسامہ حمزہ تحریک انصاف کا قومی اسمبلی کا اُمیدوار ہے اور وڑائچ برادران کا سیاسی مخالف رہا ہے۔ اُسامہ حمزہ کی مکمل سپورٹ اسد زمان چیمہ کے ساتھ ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کا ورکر اور سپورٹر اسد زمان چیمہ کو ووٹ دے گا۔ جبکہ دوسری جانب وڑائچ برادری کا دھڑا بلال اصغر وڑائچ کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔ اب اصل مقابلہ وڑائچ دھڑا اور تحریک انصاف کے ووٹرز کے درمیان ہوگا۔

اگر وڑائچ دھڑا خالد جاوید وڑائچ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جاملتا ہے تو بلال اصغر وڑائچ ہار جائیں گے۔ بلال اصغر وڑائچ کی جیت مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار نہ ہونے کی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر خالد جاوید وڑائچ اپنے بھائی کی سپورٹ کرے اور بلال اصغر وڑائچ تحریک انصاف کے ووٹرز میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے تو بلال اصغر وڑائچ جیت سکتا ہے۔

بنیادی طورپر یہ حلقہ اُسامہ حمزہ کی سیاست کا تعین کرے گا۔ اگر اُسامہ حمزہ اپنے اُمیدوار اسد زمان چیمہ کو بلے کے نشان کے بغیر جتواسکتا ہے تو اس کے ایم این اے بننے کی بھی راہ ہموار ہوجائے گی۔ آخر میں اُسامہ حمزہ کے آرائیں ووٹرز کی اکثریت پی پی 119 میں پائی جاتی ہے۔ دیہی علاقہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کے ساتھ ساتھ اُمیدواروں کا مضبوط ہونا بھی جیت کے لیے ضروری ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos