بھارت میں بی جے پی کے زیر اثر وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں دو ہزار پچیس کی خارجہ پالیسی توقعات کے مطابق نہیں چل سکی۔ بھارتی اخبار دی ہندو نے اسے ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے “وعدوں کے بکھرنے” والا سال قرار دیا۔ اخبار کے مطابق علامتی سفارت کاری، ذاتی تعلقات اور بیانیہ سازی حقیقی معاشی اور سفارتی اثر و رسوخ کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکی۔
اخبار کے مطابق بھارت نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے شراکت داروں کے لیے بھی ایسے وعدے کیے جنہیں پورا کرنے کے لیے ضروری اثر و رسوخ اور صلاحیت موجود نہیں تھی۔ امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے، دو ہزار پچیس بھارت کے لیے مشکل ترین سال رہا، جہاں پچیس فیصد ٹیرف، روسی تیل پر اضافی پابندیاں اور مخصوص ویزا پر قدغنوں نے واضح کر دیا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات محدود اور مفاداتی نوعیت کے ہیں۔
اخبار کے مطابق دو ہزار سترہ کے مقابلے میں دو ہزار پچیس میں امریکہ کی قومی حکمت عملی میں بھارت کا کردار محدود کر دیا گیا۔ چین اور روس کے ساتھ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے باوجود لائن آف ایکچول کنٹرول اور سرمایہ کاری کے معاملات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی اور بھارت صرف علامتی موجودگی تک محدود رہا۔
توانائی کے شعبے میں امریکی دباؤ کے تحت بھارت کو روسی تیل کے معاملے میں اپنا موقف بدلنا پڑا۔
دی ہندو نے پہلگام کے واقعے اور اس کے بعد کی کارروائیوں کو ناکامی قرار دیا اور تسلیم کیا کہ عالمی سطح پر بھارتی اقدامات کو متوقع حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ بھارتی کارروائی کے دوران طیاروں کے نقصانات پر خاموشی نے بھی ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے کا اعلان بھارت کے لیے اضافی دھچکا ثابت ہوا۔













