صوبے یا بلدیاتی حکومتیں: وفاق کا اصل سوال

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

وفاقی ڈھانچے میں نئے صوبوں کی تشکیل ہمیشہ سے ایک نازک اور حساس بحث رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صوبے انتظامی بنیادوں پر قائم کیے جائیں یا ان کی بنیاد لسانی، نسلی، مذہبی اور ثقافتی شناخت پر رکھی جائے؟ یہ بحث براہ راست وفاق کی بقا، قومی وحدت اور مقامی حکمرانی کے تصور سے جڑی ہوئی ہے۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں

انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے کے حامی یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ چھوٹے یونٹس بہتر حکمرانی اور عوامی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات تو دراصل بلدیاتی حکومتوں کا دائرہ کار ہیں۔ اگر بلدیاتی نظام کو بااختیار اور فعال بنایا جائے تو وہ براہِ راست عوام کو جواب دہ اور سہولت فراہم کرنے والا نظام بن سکتا ہے۔ صوبوں کی کثرت سے زیادہ ضرورت مضبوط مقامی حکومتوں کی ہے، جو اختیارات اور وسائل کو عوامی سطح پر تقسیم کر سکیں۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں

اس کے برعکس صوبے محض انتظامی نہیں بلکہ شناخت اور نمائندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ دنیا کی کئی وفاقی ریاستوں نے نسلی، لسانی اور ثقافتی شناختوں کو آئینی ڈھانچے میں جگہ دی ہے تاکہ تنوع کو تسلیم کر کے قومی اتحاد کو مضبوط بنایا جا سکے۔ اگر نئے صوبے بنائے جانے ہیں تو ان کی بنیاد محض انتظامی سہولت نہیں بلکہ ثقافتی شناخت اور تاریخی حقائق ہونے چاہئیں۔

ریپبلک پالیسی ٹوئٹر پر فالو کریں

پاکستان کے لیے راستہ واضح ہے۔ اصل حل مضبوط بلدیاتی حکومتیں ہیں جو عوامی سطح پر گورننس کو یقینی بنا سکیں۔ جہاں حقیقی ثقافتی اور تاریخی ضرورت ہو، وہاں نئے صوبے بنائے جا سکتے ہیں، لیکن انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم وفاق کو مزید کمزور کرے گی۔ اصل وفاقیت اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب شناخت کو احترام دیا جائے اور بلدیاتی نظام کو عوامی خدمت کا اصل ضامن بنایا جائے۔

ریپبلک پالیسی فیس بک پر فالو کریں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos