خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جو بظاہر مالی نظم و ضبط، ترقیاتی اقدامات اور متوسط طبقے کیلئے ریلیف کا ایک متوازن خاکہ پیش کرتا ہے۔ تاہم، اگر اس بجٹ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں کئی تضادات، عملی مشکلات اور انتظامی کمزوریاں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں حکمرانی کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو عوامی خدمات کی مؤثر فراہمی کے حوالے سے کوئی خاص ساکھ حاصل نہیں رہی۔ دہشت گردی، کمزور ادارے اور پسماندہ معیشت کے طویل اثرات نے صوبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ تاہم، حالیہ بجٹ میں مالی نظم و ضبط کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور وزیر خزانہ آفتاب عالم نے دعویٰ کیا کہ صوبے کی اپنی محصولات میں اضافہ کیا گیا ہے، خاص طور پر خدمات پر سیلز ٹیکس کی مد میں۔ یہ کامیابی اس وقت اہم قرار دی جا رہی ہے جب مرکز کی جانب سے خالص منافع، پٹرولیم پالیسی کے تحت لیوی، اور ضم شدہ اضلاع کیلئے فنڈز میں کمی واقع ہوئی ہے۔
بجٹ میں شہری متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس میں نرمی، ماحول دوست گاڑیوں کی رجسٹریشن و ٹوکن ٹیکس کی معافی، اور ہوٹل بیڈ ٹیکس میں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ کم از کم اجرت کو 40,000 روپے مقرر کرنا بھی ایک نمایاں سیاسی پیغام ہے، جو وفاق اور دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔
اسی طرح، صحت، تعلیم، پانی اور سماجی تحفظ جیسے شعبوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بجٹ صوبے میں ترقی، روزگار اور تحفظ کا روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اہداف زمینی حقیقتوں کے مطابق حاصل ہو پائیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ترقیاتی اسکیموں کے ناقص نفاذ، لاگت میں اضافہ، منصوبہ بندی کی کمزوریوں، اور بدعنوانی کی شکایات معمول بن چکی ہیں۔ محض بجٹ میں رقوم مختص کرنا کافی نہیں، جب تک ان رقوم کے شفاف اور مؤثر استعمال کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔
علاوہ ازیں، صوبے کی معیشت اب بھی مرکز پر انحصار کرتی ہے۔ اگرچہ صوبائی محصولات میں اضافہ ہوا ہے، مگر صنعتی، تجارتی اور نجی سرمایہ کاری کی کمی اسے پائیدار مالی خودمختاری نہیں دے سکی۔ عوامی شعبے کی ملازمتوں اور تنخواہوں میں اضافے کے باوجود، نجی شعبے کے روزگار، کاروبار اور ہنر مندی کے فروغ کے واضح منصوبے بجٹ میں نظر نہیں آتے۔
سماجی تحفظ کے دعوے بھی مخصوص انجام میدهم.، شفافیت اور مؤثر نگرانی کے بغیر اکثر محض سیاسی نعروں تک محدود رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل نظام، تیسری پارٹی آڈٹ، اور شکایات کے ازالے کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے فنڈز کا ضیاع ایک معمول ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ بجٹ کو صرف ایک مالیاتی دستاویز کے طور پر نہ دیکھے بلکہ اسے گورننس کی بہتری کا ذریعہ بنائے۔ نتائج پر مبنی منصوبہ بندی، افسر شاہی میں اصلاحات، اور کارکردگی کے پیمانوں پر مبنی مانیٹرنگ نظام اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔
جب تک بیوروکریسی میں قابلیت، دیانتداری اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوں گے، تب تک کوئی بھی بجٹ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔ خیبر پختونخوا کو درحقیقت ایک ایسی اصلاحاتی سوچ کی ضرورت ہے جو صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ نتائج، شفافیت اور مؤثر خدمات کو مرکز بنائے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ یہ بجٹ مالی نظم، عوامی ریلیف اور ترقی کے وعدوں سے بھرپور ہے، مگر جب تک حکومتی اہداف اور انتظامی صلاحیت میں ہم آہنگی نہیں آتی، یہ بجٹ بھی محض وعدوں، دعووں اور بیانیوں تک محدود رہے گا۔ اصلاحات کے دعوے تبھی حقیقت بنیں گے جب عملی اقدامات سے عوام کو ان کے ثمرات نظر آئیں گے۔