ادارتی تجزیہ
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت مؤثر طرزِ حکمرانی، معیاری عوامی خدمات اور اصلاحات پر عملدرآمد میں جس طرح ناکام رہی ہے، وہ اب عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکی ہے۔ کبھی اصلاحاتی وژن کی علامت سمجھی جانے والی یہ جماعت اب انتظامی توقعات اور ترقیاتی اہداف پر پوری نہیں اتر رہی۔ اس کارکردگی میں تنزلی صرف صوبے تک محدود نہیں بلکہ عمران خان کے ملک گیر سیاسی اثر و رسوخ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
سیاسی بیانیہ اب شخصیت سے کارکردگی کی طرف منتقل ہو چکا ہے، اور اس منظرنامے میں وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈا پور مرکزِ نگاہ بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت نہ صرف خیبرپختونخوا میں حکمرانی کے مستقبل کا تعین کرے گی بلکہ یہ بھی واضح کرے گی کہ کیا پی ٹی آئی کسی سطح پر حکومت چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اگر گنڈا پور انتظامی جمود توڑنے اور عوامی اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہے تو پارٹی کے لیے اپنے روایتی ووٹ بینک، خصوصاً شہری متوسط طبقے اور نوجوانوں، کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
اہم سوال یہ ہے: کیا پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو اس بحران کی شدت کا مکمل ادراک ہے؟ کیا وہ سنجیدگی سے خود احتسابی کرے گی، ترجیحات کا ازسرِنو تعین کرے گی، اور سیاسی نعروں کی جگہ عملی حکمرانی کو دے گی؟ یا پھر عمران خان کی شخصیت پر انحصار جاری رکھے گی؟ آنے والے مہینے فیصلہ کن ہوں گے—اصلاح یا زوال، پی ٹی آئی کے پاس اب دونوں راستے کھلے ہیں۔