ادارتی تجزیہ
پاکستان کی سیاست میں اصولوں کی بات کرنا ایک مشکل اور اکثر غیر مقبول کام بن چکا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت مکمل طور پر اصولی نہیں رہی۔ پاکستان تحریک انصاف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں سب سے زیادہ سیاسی و عدالتی ناانصافی کا سامنا اگر کسی کو کرنا پڑا ہے، تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔
مخصوص نشستوں کا معاملہ آئین و اخلاقیات دونوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں صرف انہی جماعتوں کو دی جا سکتی ہیں جو اپنے انتخابی نشان کے تحت الیکشن میں حصہ لیں۔ تحریک انصاف کے بیشتر امیدوار ریاستی جبر، انتخابی نشان کی عدم دستیابی اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے آزاد حیثیت میں لڑنے پر مجبور ہوئے، مگر اس کے باوجود وہ پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی قوت کے طور پر سامنے آئی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحریک انصاف کوئی معصوم یا ہر لحاظ سے اخلاقیات کی علمبردار جماعت ہے۔ اس پر بھی وقتاً فوقتاً مفاداتی سیاست، الزامات، اور فیصلوں میں تضاد کا الزام لگتا رہا ہے۔ مگر مخصوص نشستوں کے معاملے میں اس کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ آئینی تشریح کے بجائے سیاسی عینک سے کیا گیا فیصلہ محسوس ہوتا ہے۔
جب وہ جماعتیں جو خود انتخابی میدان میں کمزور رہیں، مخصوص نشستوں پر قابض ہوں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقی برتری کا دعویٰ پھر کس بنیاد پر ہے؟ کیا یہ نشستیں واقعی عوام کی نمائندہ جماعت کو ملنی چاہییں یا انہیں جو اقتدار کے کھیل میں بہتر بساط بچھانے میں کامیاب ہو جائیں؟
یہی وہ نکتہ ہے جس پر تحریک انصاف کا مؤقف توجہ کا مستحق ہے۔ اگرچہ انہوں نے اس معاملے پر مکمل عدالتی جنگ نہیں لڑی، مگر اصولی مؤقف یہی رہا کہ عوام نے ووٹ جس بیانیے، جس قیادت اور جس سیاسی شناخت کو دیا، وہ ان نمائندوں کا اصل چہرہ ہے — نہ کہ وہ جھنڈا جو انتخابی نشان کی تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے ہاتھ سے چھن گیا۔
یقیناً تحریک انصاف کی قیادت اور بیانیہ کئی مواقع پر متنازع رہا ہے۔ فیصلوں میں تضاد، سیاسی انتقام، اور اندرونی خلفشار اس جماعت میں بھی پایا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود، مخصوص نشستوں کے مسئلے پر ان کے مؤقف کو رد کرنا صرف اس بنیاد پر کہ ان پر ماضی میں تنقید ہوتی رہی ہے، انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
جمہوریت کی روح صرف آئینی شقوں میں نہیں، بلکہ عوامی مینڈیٹ کے احترام میں ہے۔ تحریک انصاف کی عوامی حمایت کو مخصوص نشستوں کے ذریعے پارلیمان سے عملاً غائب کر دینا نہ صرف ایک سیاسی زیادتی ہے، بلکہ یہ آئندہ جمہوری عمل پر بھی سنگین سوالات چھوڑے گا۔
یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے بعض اوقات خود بھی سیاسی مفاد کو اصولوں پر ترجیح دی ہے، مگر مخصوص نشستوں کے معاملے میں اخلاقی برتری ان جماعتوں کی نہیں جو کمزور ووٹ بینک کے باوجود اقتدار میں شریک ہیں — بلکہ اس بیانیے کی ہے جسے عوام نے اپنے ووٹ سے توانا کیا، چاہے وہ جس شکل میں ہو