ظفر اقبال
وزیر اعظم شہباز شریف نے 18 مئی 2025 کو آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی۔ اس اجلاس میں وفاقی وزارتوں نے جاری اور نئے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 2.8 کھرب روپے کے فنڈز کی درخواست دی، جبکہ وزارت منصوبہ بندی نے مالی گنجائش کے پیش نظر صرف 1.5 کھرب روپے مختص کرنے کی سفارش کی۔ تاہم، وزارت خزانہ جو اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سخت شرائط کے تحت کام کر رہی ہے، نے واضح کر دیا کہ وہ ایک کھرب روپے سے زیادہ کی رقم مختص نہیں کر سکتی، جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے کم ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے وزارت خزانہ کو رقم بڑھانے کی ہدایت دی گئی ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آئی ایم ایف اس اجازت پر آمادہ ہوگا یا نہیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں اعتراف کیا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں ترقیاتی پروگرام کو بڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 31 مئی 2025 تک بجٹ شدہ کو 1.1 کھرب روپے تک محدود کر دیا گیا، جس میں سے صرف 596 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اس کم خرچ کی ایک بڑی وجہ فنڈز کا اجراء نہ ہونا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ وزارتوں کی محدود استعداد کار اور منصوبہ جات کی کمزور منصوبہ بندی بھی ذمہ دار ہیں۔
فنڈز استعمال نہ ہونا ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر سال حکومتیں ایک بڑا ترقیاتی بجٹ پیش کرتی ہیں، جسے عوام دوست قرار دیا جاتا ہے، لیکن مالی سال کے اختتام پر خسارہ کم کرنے کے لیے اسے بے دردی سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ رواں مالی سال میں 806 ارب روپے کا شارٹ فال رہا، جو گزشتہ برسوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اس طرزِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقیاتی بجٹ اکثر سیاسی نمائش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں اسے مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں حکومتیں عمومی طور پر مادی انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی ہیں جیسے سڑکیں، پل، اور توانائی منصوبے۔ یہ منصوبے چونکہ جلد مکمل ہو جاتے ہیں اور عوامی سطح پر واضح نظر آتے ہیں، اس لیے انہیں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم، صحت، اور انسانی ترقی جیسے شعبے جن کے اثرات طویل المدتی ہوتے ہیں، مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے تعلیم پر مستقل سرمایہ کاری کے ذریعے نہ صرف شرح خواندگی کو 99 فیصد تک پہنچایا بلکہ جدید ٹیکنالوجی میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
احسن اقبال نے اپنی تقریر میں کہا کہ “ہم صرف بجٹ نہیں، بلکہ قوم کا مستقبل تشکیل دے رہے ہیں”۔ یہ ایک پرجوش بیان ضرور ہے، لیکن جب تک عملی اقدامات نہ کیے جائیں، یہ الفاظ صرف جذباتی تقریروں تک محدود رہیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی حکمت عملی کو حقیقت پسندانہ بنائے، سماجی شعبوں کو مالی ترجیح دے، اور وزارتوں کی منصوبہ بندی و عملدرآمد کی صلاحیت کو بہتر بنائے تاکہ بجٹ کو مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے۔
مجموعی طور پر پاکستان کو صرف سڑکوں، پلوں اور عمارتوں پر نہیں بلکہ عوام کی ترقی پر توجہ دینا ہو گی۔ ایک تعلیم یافتہ، صحت مند اور بااختیار قوم ہی ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ جب تک سماجی ڈھانچے کو مضبوط نہیں کیا جاتا، تب تک ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ ملک کو مستقبل میں مالی خودمختاری اور معاشی استحکام کے لیے انسانی وسائل پر طویل المدتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔