Premium Content

دی پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی

Print Friendly, PDF & Email

ازقلم عبدالغفور چودھری


بیورکریسی کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ بااختیار ہو، اپنے فیصلوں میں آزاد ہو،ایمان دار و دیانت دار ہواور میرٹ کی حکمرانی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پاکستان کی تخلیق کے ابتدائی دور میں آئی سی ایس افسران اتنے زیرک، معاملہ فہم، با صلاحیت اور پیشہ ور تھے کہ ایک ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان نے دو سینئر بیوروکریٹس کو گورنر مغربی پاکستان اور گورنر مشرقی پاکستان مقرر کر رکھا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہماری سیاست میں خودغرضی عود کر آئی اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کا سلسلہ چل نکلا تو ہر آنے والے حکمران نے بیورو کریسی کو سد راہ سمجھتے ہوئے اسے بے دست و پا کرنے کے عمل میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔جس کے نتیجے میں حکمرانوں کی طاقت میں تو اضافہ ہوا لیکن ریاست بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی۔


جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کا وزیر اعظم بننے کے بعد سی ایس پی کیڈر اوران کی سروس کو دیا گیا آئینی تحفظ ختم کر کے اسے سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔جس سے بیوروکریسی میں بددلی پھیل جانا ایک فطرتی امر تھا۔ ذہین و فطین لوگوں کا اس سروس میں آنے کا رحجان کم ہو گیا۔اس کے بعد 1996میں آئین پاکستان کے ایک آرٹیکل کی روشنی میں عدلیہ کو انتظامیہ سے ٰعلیحدہ کر دیا گیا۔لیکن حکومتی رٹ کو قائم رکھنے اور آئین کی روح کے مطابق اس کے پاس مجموعہ ضابطہ فوجداری۔1898کے تمام جرائم اور تعزیرات پاکستا ن کے انتظامی نوعیت کے ابواب نمبر۔9,8، 10اور13کے ٹرائیل کے اختیارات انتظامیہ کے پاس رہنے دیے گئے۔ جس کی بدولت پولیس کسی حد تک انتظامیہ سے تعاون کرتی رہی کیوں کہ انہیں کچھ مقدمات کے ریمانڈ وغیرہ کے سلسلہ میں انتظامی مجسٹریٹس کے پاس پیش ہونا پڑتا تھا۔لیکن ایک ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے نہ جانے کس کے ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے اس ملک کے ساتھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس۔2001کی صورت میں جو خطرناک کھیل کھیلا اس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو میٹرک پاس ناظمین کے ماتحت کر دیا گیا۔ ان کے عہدوں کے نام تک تبدیل کر دیے گئے۔یہاں تک کہ پی سی ایس کے مقابلہ کا سخت ترین امتحان پاس کر کے آنے والے گریڈ سترہ کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر(مجسٹریٹ درجہ اول) کو اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ افسر بنا دیا گیا۔ دوسری طرف 100نمبروں کا گریڈ سولہ کا محکمانہ امتحان پاس کر کے بھرتی ہونے والوں کو بھی اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ افسر کا عہدہ دے دیا گیا۔پولیس رولز۔1934 کو تبدیل کر کے پولیس آرڈر2002لاگو کر کے پولیس کو مادر پدر آزاد کر دیا گیا۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com


و ہ وقت پاکستان کی بیوروکریسی پر بہت بڑی آزمائش کا دور تھا۔ پولیس کی مدد کے بغیر انتظامی افسران نہ جانے کس طرح حکومتی رٹ کو قائم رکھتے رہے۔ ذخیرہ اندوازوں، گراں فروشوں اور قبضہ گروپوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے پولیس امداد کی ضرورت پڑنے پر پولیس پس و پیس سے کام لیتی رہی۔ یہ سن 2008 کی بات ہے۔راقم گوجرانوالہ میں بطور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ تعینات تھا۔ایک علاقہ میں ریڈ کی۔ گراں فروشوں کو جرمانہ کیا۔ جرمانہ دینے سے انکار کرنے والوں کو گرفتار کر لیا۔ ٹاون ناظم صاحب بہادر موقع پر تشریف لائے۔مجھے گرفتار شدہ ملزمان کو چھوڑنے کا حکم دیا۔انکار پر ان کے حکم پر پبلک نے میری گاڑی کا گھیراو کر لیا۔ پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کی گئی۔ ایس ایچ او صاحب موقع پر تشریف لائے۔ مجھے فرمانے لگے کہ میرے تھانہ کی حدود میں ریڈ کرنے سے پہلے آپ کو مجھ سے اجازت لینا چاہیے تھی۔یعنی نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ ایک مجسٹریٹ کو ریڈ کرنے سے پہلے ایس ایچ او صاحب بہادر سے اجازت لینا چاہیے تھی۔اسی پر بس نہیں ان ملزمان کے خلاف پولیس نے بڑی مشکل سے مقدمہ درج کیا۔مقدمہ تو جیسے تیسے درج ہو گیالیکن بعد میں پولیس نے سارے ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا۔ پولیس کی عدم تعاون کی ا یسی روش کے باعث،ڈی سی او صاحبان کو ریاستی امور سر انجام دینے کے لیے مجبورا سول ڈیفنس کے رضا کار بھرتی کرناپڑے۔


لہٰذاگڈ گوورننس کے تصور کے پیش نظر ایسی قانون سازی کی ضرورت تھی جس کی بنیاد پر یا تو پولیس فورس کو انتظامیہ کے ماتحت کر دیا جاتا یا اس کے نعم البدل کے طور پر کوئی محکمہ بنا دیا جاتا۔اس لیے حکومت پنجاب نے دیر آید درست آید کے مترادف”دی پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی“قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ اتھارٹی سرکاری راستوں کی وا گزری، عارضی تجازات، مستقل تجاوزات، ذخیرہ اندوی اور گراں فروشی کے خلاف کاروائی کرنے کی مجاز ہو گی۔ مجوزہ قانون میں ایک صوبائی اتھارٹی تجویز کی گئی جو وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں کام کرے گی۔ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری بورڈ قائم کیا جائے گا۔اور تحصیل کی سطح پر ایک اسسٹنٹ کمشنر کو ہیئرنگ افسر مقرر کیا جائے گا جو اپنے ماتحت عملہ کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ تحصیل کی سطح پر ایک ”انفورسمنٹ اسٹیشن“ قائم ہو گا جس کا انچارج گریڈ۔16کا ڈویژنل انفورسمنٹ افسر ہو گا۔ اس کے زیر کمان گریڈ۔14کے انفورسمنٹ افسر، اور گریڈ۔11 کے تفتیشی افسر بھی ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس اسٹیشن میں گریڈ۔07کے سارجنٹ اور یگر معاون سٹاف اور ایک پراسکیوٹر بھی تعینات کیا جائے گا۔ ملازمین ایک مخصوص وردی پہنیں گے اور انھیں اسلحہ سے بھی لیس کیا جائے گا۔ انفورسمنٹ اسٹیشن کے ذمہ اتھارٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد، انسپکشن، انکوائریز، ایف آئی آرز کا اندراج، تفتیش، ملزمان کی گرفتاری اور تجاوزات گرانے پر اٹھنے والے اخراجات کی وصولی ہو گی۔ مجوزہ ایکٹ کے تحت تمام جرائم قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت ہوں گے۔مجسٹریٹ درجہ اول جرم ثابت ہونے پر چھ ماہ تک قید اور تین لاکھ تک جرمانہ کی سزا دینے کا مجاز ہو گا۔ ناقص تفتیش کرنے یا اختیارات سے تجاوز کرنے پر سرکاری ملازم کو جرم ثابت ہونے چھ ماہ تک قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔صوبے کی تمام ایگزیکٹو اٹھارٹیز بشمول پولیس اور عوام بوقت ضرورت اتھارٹی کی مدد کرنے کی پابند ہو ں گی۔


سننے میں آیا ہے کہ پنجاب پولیس کو اس اتھارٹی پر شدید تحفظات ہیں۔وہ اسے ایک متوازی نظام گردان رہی ہے۔ پولیس تو2001 میں لوکل گورنمنٹ نظام کے نفاذ پر ڈی ایم جی سے آزادی پر بہت زیادہ خوش تھی۔ انتظامیہ نے چوبیس سال تک ان کے عدم تعاون کے باوجود اپنی فرائض منصبی احسن طریقے سے سر انجام دیے ہیں۔اب اگر حکومت پنجاب کو سمجھ آ گئی ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے تو پولیس کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے اختیارات تو نہیں واپس لیے جا رہے۔نہ ہی انھیں انتظامیہ کی ماتحتی میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انہیں زیادہ مسئلہ ہے تو 2001سے پہلے والے نظام کے تحت انتظامیہ کی ماتحتی میں آ جائیں۔کیونکہ وہ ایک لاء انفورسنگ ایجنسی ہے، ڈیپارٹمنٹ نہیں۔ ایجنسیز تو ہمیشہ انتظامیہ کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں۔سردست پولیس کی اشک شوئی کی خاطر حکومت پنجاب کو چاہیے کہ پراونشل اتھارٹی میں جناب پراونشل پولیس آفیسر کو اور ڈسٹرکٹ انفورسمنٹ بورڈ میں ضلعی پولیس افسر کو بھی بطور رکن نمائندگی دے دی جائے کیونکہ اگر کاروائی کے دوران امن عامہ کا مسئلہ بنتا ہے تو اسے لوکل پولیس نے ہی ہینڈل کرنا ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos