مبشر ندیم
پنجاب حکومت کی جانب سے گندم خریداری سے اچانک دستبرداری ایک خطرناک قدم ہے جس نے نہ صرف کسانوں کو معاشی نقصان پہنچایا بلکہ ملک کی فوڈ سکیورٹی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گندم پاکستان کی بنیادی غذائی فصل ہے جس کی قیمت، کاشت اور ترسیل کا نظام عشروں سے حکومتی نگرانی میں رہا ہے۔ اس نظام میں اچانک تبدیلی، بغیر کسی متبادل ڈھانچے یا قیمت کے تحفظ کے، کسانوں کے لیے شدید مالی بحران کا سبب بنی ہے۔
حکومتی خریداری کے بغیر جب گندم کی فصل منڈی میں آئی تو سپلائی میں اچانک اضافے کے باعث قیمتیں بری طرح گر گئیں، جو کہ پیداواری لاگت سے بھی کم ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال نے کسانوں کو گندم کی کاشت ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اور کئی علاقوں میں اس کی زیر کاشت زمین میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ حکومت خود اپنے گوداموں سے پرانی گندم سستے داموں فروخت کر رہی ہے، جس کا مقصد صرف مارکیٹ میں قیمتوں کو نیچے رکھنا ہے، نہ کہ کسانوں کی فلاح۔ اس پالیسی کا فوری فائدہ تو ممکنہ طور پر صارفین کو ملے، لیکن طویل المدت میں یہ اقدامات گندم کی قومی پیداوار میں کمی، درآمدات پر انحصار اور تجارتی خسارے میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اگر گندم کی کاشت مزید کم ہوئی اور عالمی منڈی پر انحصار بڑھا، تو پاکستان کو نہ صرف مہنگی درآمدات کرنی پڑیں گی بلکہ غذائی قلت جیسے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے، قیمتوں میں استحکام لائے اور پائیدار زرعی پالیسی مرتب کرے تاکہ ملک کی غذائی خودکفالت قائم رہ سکے۔
مبشر ندیم