مصنف: طاہر مقصود
مصنف پولیس سے ایس ایس پی ریٹائرڈ ہیں۔
گذشتہ شام سوشل میڈیا پر ایک نوٹی فکیشن شیئر کیا گیا۔
نوٹی فکیشن پر چونکہ 2021ء کی تاریخ درج تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لیٹر کسی ”شریربچے“نے شیئر کیا تھا۔ شرارت اس لیے کے ٹی وی خبر کے مطابق آج 324 سب انسپکٹرز کو انسپکٹر کے عہدہ پر ترقی دی گئی ہے۔ لیکن میرے لیے نوٹی فکیشن کا عنوان دلچسپ تھا۔ لیٹر کانمبر اور عنوان ذیل تھا۔ اے ڈی ای-1/7422-23-ای-11 مورخہ22.10.2021 ترقی قائم مقام انسپکٹربی ایس -16 نوٹی فکیشن کے مطابق 368سب انسپکٹرز کو بی ایس -14 سے قائم مقام انسپکٹر بی ایس -16 کے عہدہ پر ترقی دے کر تین سال کے لیے ”آن پروبیشن“ عرصہ آزمائشی پر رکھا گیا ہے۔ ”پروبیشن“ اور ”قائم مقام “ دو مختلف اقسام کی ترقیاں ہیں ایک ہی نوٹی فکیشن میں تمام لوگوں کو دومختلف قسم کی ترقیاں دینا ناقابل فہم تھا۔
پولیس رولز 1934ء کا باب 12اورباب13انسپکٹر رینک تک کے افسران کی سنیارٹی اور ترقی کے معاملات پر قانونی قواعد فراہم کرتے ہیں۔ باب13کا قاعدہ نمبر4اورقاعدہ نمبر16(2) ”قائم مقام انسپکٹر“ ترقی کا طریقہ کار واضح کرتاہے۔ جس کے مطابق یہ اختیار ڈی آئی جی (آرپی او) کے پاس ہے کہ وہ سنیارٹی لسٹ (ایف) پر موجود سب انسپکٹر کو(قائم مقام) انسپکٹر کے عہدہ پر ترقی دے۔
پنجاب حکومت کی پروموشن پالیسی 2010کے مطابق بھی ”قائم مقام ترقی“ دی جاسکتی ہے۔اس پالیسی میں تحریرہے کہ اگر کوئی آفیسر ڈیپوٹیشن پر چلاجائے یا معطل ہوجائے یا چھ ماہ سے زائد رخصت پر چلاجائے تو عارضی طور پر اس آسامی پر کسی آفیسر کوقائم مقام ترقی دی جاسکتی ہے۔
آسان الفاظ میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ ترقی قطعی طور پر عارضی ہوتی ہے جبکہ”اَن پروبیشن“ آفیسر کی ترقی تو مستقل ہوتی ہے۔ پولیس رولز کے باب13فقرہ18کے مطابق جو بھی پولیس آفیسر ترقی یاب ہوگا وہ دو سال تک عرصہ آزمائشی پر رہے گا۔ یہ عرصہ خصوصی حالات میں کم تو ہوسکتا ہے مگر بڑھ نہیں سکتا۔ اسی طرح پنجاب سول سرونٹ رولز 1974 کے رول 7کے مطابق ترقی یاب ہونے والا آفیسر ایک سال تک پروبیشن پر رہے۔ گا۔نوٹی فکیشن متذکرہ بالا میں عرصہ پروبیشن تین سال قطعی غیر قانونی ہے۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب پولیس کے افسران سنیارٹی اور ترقیوں کو لے کر مختلف عدالتوں میں مقدمات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ بڑی آسانی سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم رینک افسران ہی ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ بازی کا باعث ہیں مگر کیا پولیس کے ذمہ دار افسران اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھارہے ہیں تو یقیناً جواب نفی میں آئے گا۔ بدقسمتی سے ماتحتان کی ترقی/سنیارٹی کے معاملات صرف کلرکس کے حوالے ہیں۔ حالانکہ یہ کلرک سینئر افسران کے مددگار کے طورپر ہوتے ہیں اور ان کا کام ریکارڈ کی تکمیل اور محفوظ حفاظت کے علاوہ کچھ نہیں۔
اب یہ سینئر افسرکی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی بھی حکم جاری کرنے سے پہلے متعلقہ قانون /رول کا حوالہ ملاحظہ کرے اور یہ نہایت مناسب ہوگاکہ متعلقہ قانون کا حوالہ حکم میں تحریر کردیاجائے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صوبائی ایس پی رینک کے افسران اگلے گریڈ میں ترقی صوبائی سطح پر مانگ رہے ہیں۔ ڈی ایس پی صاحبان شاکی ہیں کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پروموشن رولز 2021میں ڈی ایس پی سےایس پی رینک میں ترقی کا کوٹہ چالیس فیصد مقرر کردیا گیا ہے۔ ٹریفک انسپکٹر بھرتی ہونے والے افسران محکمہ سے نالاں ہیں کہ ٹریفک کیڈر ختم ہونے اور وارڈن سروس متعارف ہونے کے بعد ان کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہ کیا گیا تھا۔ براہ راست سب انسپکٹر بھرتی ہونے والے افسران سراپاء احتجاج ہیں کہ بھرتی کرتے وقت اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ بذریعہ پبلک سروس کمیشن امتحان دے کر فاسٹ ٹریک پروموشن حاصل کرسکیں گے مگر ابھی تک کوئی امتحان منعقد نہ کرایا گیاہے۔ براہ راست بھرتی ہونے والےاے ایس آئی صاحبان گذشتہ 12سال سے اگلے گریڈ میں ترقی کے منتظر ہیں۔ الغرض پنجاب پولیس کے تقریباً تمام رینک کے افسران سنیارٹی اور ترقی کے قواعد اور طریقہ کار سے مایوسی کا شکار ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس کا دفتر ماتحت دفاتر اور ماتحت افسران کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ دفتر اپنا کردار ادا کرے اور ماتحت دفاتر کی راہنمائی کرے۔
انسپکٹرزاور ڈی ایس پی صاحبان کے ایک گروپ کا سنیارٹی کا کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت ہے گذشتہ پیشی پر ڈی آئی جی لیگل عدالت میں پیش ہوئے اور تسلیم کیا کہ سنیارٹی لسٹیں بناتے ہوئے محکمہ سے غلطی ہوئی ہے عدالت اس کیس کا کیا فیصلہ کرے گی وہ تو معلوم نہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اسٹیبلشمنٹ پنجاب جن کے نیچے دو ڈی آئی جیز اور بہت سارا دیگر عملہ تعینات ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔
پولیس رولز 1934ء کے باب 12اورباب13جو سنیارٹی اور ترقی سے متعلقہ ہیں کو خود بھی پڑھیں اور اپنے ماتحت افسران کو بھی ازبر کرائیں مناسب ہوگا اردو میں ایک پمفلٹ پالیسی لیٹر کی شکل میں اضلاع میں بھیج کر تجاویز مانگ لی جائیں یہ پالیسی تیار کرتے وقت مختلف عدالتوں /سروس ٹربیونل کی طر ف سے کیے گئے فیصلوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ از راہ تفنن واقعہ پیش خدمت ہے کہ ایک ماتحت ایک سینئر افسر کے پیش ہوا اور عرض کی کہ حضور پولیس رولز کے مطابق سنیارٹی کا طریقہ طے ہے اور آپ کا فیصلہ بمطابق رولز نہ ہے تو آفیسر نے فرمایا میں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہوا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجھے کسی بات کا پتہ نہیں ہے۔
ماتحت آفیسر نے جب بتایا کہ جناب سی ایس ایس میں پولیس رولز کا امتحان نہیں ہوتا تو صاحب ناراض ہوگئے۔ یہ وقعہ اس لیے لکھا ہے کہ جناب ایڈیشنل آئی جی صاحب اسٹیبلشمنٹ ناراض نہ ہوجائیں۔
اب یہ وقت ہے کہ صوبے میں ہر ایک رینک میں جس کسی آفیسر نے جو بھی اپیل کی ہوئی ہے کو نپٹا دیا جائے اور ترقی کا ایسا شفاف نظام متعارف کرایا جائے کہ مقررہ وقت ، تجربہ اور کورسز کے بعد افسران خود بخود ترقی یاب ہوتے رہیں اور کلرک مافیا سے چھٹکارا حاصل ہو سکے بصورت دیگر یہ افسران عدالتوں میں دھکے کھاتے رہیں گے اور قیمتی وقت ضائع کریں گے اور یہ احساس مزید بڑھتا رہے گا کہ پی ایس پی افسران جن کے پاس محکمہ کی کمانڈ ہے ماتحتان کو انصاف دینے میں ناکام رہے ہیں اور ماتحت افسران اس کا بدلہ عوام الناس سے لیں گے کیونکہ مایوسی ہمیشہ برائی کو جنم دیتی ہے اور جب افسران پولیس مایوس ہونگے تو یقیناً کرپشن، اقرباء پروری، ناانصافی اور ظلم میں اضافہ ہوگا۔
1 thought on “پنجاب پولیس میں ترقی کا نظام”
Respected and Dear Tahir Bhai!
Nice to see this article and surprised to know that you are writing for the ranks of this department.
Lot of prays and best wishes for you and your family, Sir.
Kind Regards