تجاوزات کے خلاف مہم: شفافیت یا جانبداری؟

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم ایک ایسا عمل ہے جو بظاہر سرکاری زمینوں، سڑکوں اور عوامی مقامات کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے شروع کیا گیا، لیکن حقیقت میں اس کے اثرات غریب اور کمزور طبقے پر سب سے زیادہ پڑ رہے ہیں۔ جب ریڑھی بانوں، ٹھیلے والوں اور چھوٹے کھوکھے والوں کے کاروبار توڑ دیے جاتے ہیں تو ان کا واحد ذریعہ معاش ختم ہو جاتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں چھوٹے کاروبار اس ڈرائیو کی زد میں آ چکے ہیں اور صرف لاہور میں پچیس ہزار سے زائد ریڑھیاں اور کھوکھے ختم کیے گئے جن سے جڑے خاندان غربت اور بیروزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیے گئے۔ حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی متبادل جگہ دی جاتی ہے اور نہ ہی متاثرین کی باز آبادکاری کی کوئی پالیسی سامنے آتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ڈرائیو معاشی اور سماجی مسائل کو بڑھا دیتی ہے۔

ویب سائٹ

اس کے برعکس بڑے سرمایہ کاروں اور طاقتور طبقے کی تجاوزات عموماً قانون کی گرفت سے باہر رہتی ہیں۔ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہزاروں کنال زمین پر قائم ہیں اور اربوں روپے کما رہی ہیں، مگر اتجاوزات کے خلاف ٹیمیں زیادہ تر چھوٹے تجاوزات کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاکھوں کنال پر محیط غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمیں اب بھی سرگرم ہیں لیکن ان کے خلاف شاذونادر ہی کوئی بڑی کارروائی ہوتی ہے۔ یہی دوہرا معیار عوام کے دلوں میں یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ قانون کمزور کے لیے اور طاقتور کے لیے کیوں مختلف ہے؟

یوٹیوب

عدالتوں نے بھی اپنے فیصلوں میں یہ واضح کیا ہے کہ سرکاری زمین پر قبضہ غیر قانونی ہے لیکن متاثرہ افراد کو متبادل فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ڈرائیو کے دوران بے گھر ہونے والوں کے لیے کوئی حکومتی حکمت عملی موجود نہیں جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مہم آئینی تقاضوں جیسے آرٹیکل 9 اور 14 سے متصادم ہے جو زندگی اور انسانی وقار کی ضمانت دیتے ہیں۔

ٹوئٹر

اگر حکومت واقعی تجاوزات ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے بڑے قبضہ مافیا اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی، نہ کہ صرف ریڑھی بانوں کو ہدف بنانا ہوگا۔ ساتھ ہی متاثرہ افراد کے لیے باقاعدہ ریڑھی زونز اور متبادل کاروباری سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی تاکہ وہ اپنی روزی کما سکیں۔ بصورت دیگر یہ ڈرائیو صرف نمائشی کارروائی سمجھی جائے گی اور عوام کا حکومت پر اعتماد مزید کمزور ہوگا۔

فیس بک

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ تجاوزات کیوں ختم کی جاتی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ان کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے۔ جب طاقتور طبقہ بچ نکلے اور کمزور برباد ہو جائے تو یہ انصاف نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔ پنجاب کی تجاوزات کے خلاف مہم اسی حقیقت کو نمایاں کر رہی ہے کہ یہاں قانون کا اطلاق سب پر برابر نہیں، اور جب تک یہ توازن درست نہیں ہوگا یہ مہم سماجی انصاف کی بجائے سماجی ناانصافی کی علامت بنی رہے گی۔

ٹک ٹاک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos