پنجاب میں اسلحہ کے خاتمے کی مہم

[post-views]
[post-views]

طاہر مقصود

پنجاب حکومت کا صوبے سے غیر قانونی اسلحہ ختم کرنے کا فیصلہ قابلِ تعریف اقدام ہے۔ طویل عرصے سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کے اسلحے کے پھیلاؤ سے دوچار رہا ہے، جس نے عوامی سلامتی کو نقصان پہنچایا اور معاشرتی سطح پر قانون شکنی اور عدمِ احتساب کے کلچر کو فروغ دیا۔ صوبائی چیف ایگزیکٹو کی سربراہی میں ہونے والے حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں لیا گیا یہ فیصلہ اس امر کی علامت ہے کہ حکومت ریاست کے اس بنیادی اصول کو بحال کرنے کے لیے سنجیدہ ہے کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کے ہاتھ میں ہونا چاہیے — اور یہی کسی فعال جمہوریت کی بنیاد ہے۔

ویب سائٹ

اس نئے اقدام کے تحت پنجاب میں نئی قانون سازی متعارف کرائی جائے گی، اسلحے کے ضابطہ جاتی نظام کو مضبوط کیا جائے گا، اور نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ “پنجاب سرینڈر آف الیگل آرمز ایکٹ 2025” جس کا اعلان صوبائی پولیس چیف نے کیا، اس پالیسی کا مرکزی ستون ہے۔ اسے مرحلہ وار نافذ کیا جائے گا: پہلے مرحلے میں شہریوں سے غیر قانونی اسلحہ رضاکارانہ طور پر جمع کرانے کی اپیل کی جائے گی؛ دوسرے مرحلے میں ضبط شدہ اسلحہ تباہ کیا جائے گا؛ اور تیسرے مرحلے میں لائسنس یافتہ اسلحے سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ یہ مرحلہ وار حکمتِ عملی ایک منظم اور دانشمندانہ طریقہ ہے جس کا مقصد اسلحے کی گردش کم کرتے ہوئے عوام کو پہلے رضاکارانہ عمل کا موقع دینا ہے، تاکہ بعد ازاں سخت کارروائی ناگزیر نہ بنے۔

یوٹیوب

تاہم، اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار اس کی منصفانہ، شفاف اور غیر سیاسی عمل درآمد پر ہے۔ حالیہ دنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی و سیاسی گروہوں کے درمیان ہونے والے تصادمات نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ریاستی طاقت کا استعمال غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ اگر یہ مہم کسی مخصوص گروہ کو نشانہ بناتے ہوئے دوسرے گروہوں کو نظرانداز کرتی ہے تو عوام کا اعتماد مجروح ہوگا اور ریاست کے اقدامات کی اخلاقی حیثیت کمزور پڑ جائے گی۔ قانون کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ تمام شہری، ان کی وابستگیوں سے قطع نظر، قانون کے تحت برابر سمجھے جائیں۔

مزید اہم پہلو پنجاب پولیس کی اپنی احتسابی ذمہ داری ہے۔ یہی پولیس اب شہریوں کو غیر مسلح کرنے کی ذمہ دار ہے، مگر اسی پر ماورائے عدالت کارروائیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں۔ پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے انسانی حقوق اور انصاف کے عمل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر عام شہریوں کو اسلحے کے استعمال میں سخت پابندیوں کا سامنا ہے تو قانون نافذ کرنے والے افسران کے لیے معیار اس سے کہیں زیادہ سخت ہونا چاہیے۔ ریاست اس وقت تک غیر قانونی اسلحہ ختم کرنے کی مہم میں اخلاقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کے اپنے اہلکار طاقت کے استعمال میں جواب دہ نہ بنیں۔

ٹوئٹر

لہٰذا پنجاب حکومت کو چاہیے کہ اس مہم کے ساتھ پولیس اصلاحات کو بھی لازمی جزو بنائے۔ اس میں شفاف تفتیشی نظام، نگرانی کے ادارے، اور پولیس کارروائیوں کی عوامی رپورٹنگ شامل ہونی چاہیے۔ جو افسر ماورائے عدالت کارروائیوں میں ملوث پائے جائیں، انہیں صرف تبادلوں کے ذریعے بچایا نہ جائے بلکہ قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ جب ریاست اپنے اداروں میں نظم و ضبط قائم کرے گی، تب ہی اس کی اسلحہ ضبطی مہم عوام کی نظر میں جائز اور معتبر بنے گی۔

پنجاب کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں کو بھی اسلحہ کلچر کے پھیلاؤ کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔ کراچی جیسے شہروں میں اسلحہ دکھانا اب سماجی حیثیت کی علامت بن چکا ہے — جو نہایت خطرناک رجحان ہے۔ سیاسی اور کاروباری طبقے کے گرد مسلح گارڈز کی موجودگی نہ صرف خوف کی فضا پیدا کرتی ہے بلکہ معاشرے میں دھونس اور طاقت کے کلچر کو معمول بناتی ہے۔ اگر پاکستان کو پرامن شہری زندگی کی طرف بڑھنا ہے تو عوامی مقامات سے اسلحے کا مظاہرہ ختم کرنا ہوگا۔ کسی کو بھی یہ احساسِ عدمِ تحفظ نہیں ہونا چاہیے کہ دوسروں کی طاقت کے اظہار کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔

فیس بک

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو نجی سکیورٹی گارڈز کے لیے یکساں قواعد متعارف کرانے چاہییں، جن میں بیک گراؤنڈ چیک، نفسیاتی جانچ، اور معیاری وردی شامل ہو تاکہ عوام آسانی سے شناخت کر سکیں۔ ہر اسلحہ لائسنس کو مرکزی ڈیجیٹل نظام کے تحت ازسرنو تصدیق کے عمل سے گزارنا چاہیے، اور جو افراد اسلحے کے ذریعے خوف یا دھمکی پیدا کریں، ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ ان اقدامات سے ریاستی اختیار اور غیر قانونی طاقت کے مظاہرے کے درمیان واضح فرق پیدا ہوگا اور عوام کا اعتماد قانون کی بالادستی پر بحال ہو گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں اسلحہ رکھنے کے تصور پر قومی سطح پر گفتگو کی جائے۔ تحفظ کا آئینی حق ہر شہری کا ہے، نہ کہ صرف ان کا جن کے پاس اسلحہ یا اثرورسوخ ہے۔ اسلحے میں کمی محض ضبطی کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک ایسی ثقافت کی تبدیلی ہے جہاں تشدد کو کبھی کبھار جائز یا قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ عوامی آگاہی مہمات، کمیونٹی پولیس، اور اسلحہ لائسنس کے خواہش مند افراد کے لیے ذہنی صحت کے ٹیسٹ جیسے اقدامات ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ ہونے چاہییں۔

ٹک ٹاک

پنجاب حکومت کا یہ اقدام درست سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ تاہم اس کی کامیابی انصاف، شفافیت اور احتساب کے اصولوں سے وابستہ ہے۔ امن اسی وقت ممکن ہے جب نہ شہری اور نہ ہی اہلکار قانون سے بالاتر ہوں۔ اگر معاشرہ غیر مسلح کیا جائے لیکن ادارے خود غیر جواب دہ رہیں، تو یہ صرف طاقت کا توازن بدلنے کے مترادف ہوگا، مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان میں حقیقی سلامتی کا راستہ خوف یا طاقت نہیں بلکہ قانون کی منصفانہ اور مساوی عملداری سے ہی ممکن ہے۔

انسٹاگرام

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos