روسی شرط: یوکرین جنگ بندی کیلئے ڈونباس خالی اور نیٹو سے دستبردار ہو۔

[post-views]
[post-views]

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے لیے نئی شرائط پیش کی ہیں جن میں مشرقی ڈونباس کے باقی حصے روس کے حوالے کرنے، نیٹو میں شمولیت کی کوشش ترک کرنے اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنانے کا مطالبہ شامل ہے۔ یہ دعویٰ کریملن کے قریبی ذرائع نے کیا ہے جو اعلیٰ سطحی پالیسی سے واقف ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الاسکا میں چار سال بعد پہلی ملاقات ہوئی، جس کا بیشتر حصہ یوکرین پر بحث میں گزرا۔ پیوٹن نے بات چیت کو “امن کی جانب قدم” قرار دیا، تاہم تفصیلات شیئر نہیں کیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے اپنے پرانے مطالبات میں نرمی دکھائی ہے۔ گزشتہ برس وہ نہ صرف ڈونباس بلکہ خیرسون اور زاپوریزیا پر بھی مکمل قبضہ چاہتے تھے، جسے یوکرین نے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ لیکن نئے خاکے میں روس صرف ڈونباس سے انخلا پر زور دے رہا ہے اور خیرسون و زاپوریزیا میں موجودہ محاذی لائن پر رکنے پر آمادہ ہے۔ اس کے بدلے روس خارکیف، سومی اور دنیپروپیٹرووسک کے کچھ حصوں سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہے۔

اس کے ساتھ ہی پیوٹن بدستور اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ یوکرین نیٹو کی رکنیت کی کوشش ترک کرے، مغربی افواج کو اپنی سرزمین پر تعینات نہ کرے اور فوجی طاقت پر محدودیاں قبول کرے۔

یوکرین کے صدر نے ان شرائط کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونباس سے دستبرداری ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے گی اور نیٹو میں شمولیت ان کے آئین میں درج حکمتِ عملی مقصد ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے جنگ ختم کرنے کے خواہاں ہیں اور ان کے بقول “پیوٹن امن کے لیے تیار ہیں”، لیکن یورپی رہنماؤں کو اب بھی روس کے اصل ارادوں پر شک ہے۔

ماہرین کے مطابق یوکرین کے لیے ڈونباس چھوڑ دینا نہ سیاسی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی دفاعی اعتبار سے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ آیا فریقین عملی مذاکرات کے ذریعے کوئی قابلِ عمل معاہدہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos