حکومت اور قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے سے دوروز قبل تحلیل کردی گئی۔ نگران وزیراعظم کا ابھی فیصلہ نہ ہوسکا ہے۔ نگران وزیراعظم کی تاہم تعیناتی تک شہباز شریف وزیراعظم رہیں گے۔ جن کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کا فیصلہ اگلے دو تین روز میں کرلیاجائے گا۔ اس کے بعد اقتدار نگران حکومت کے سپرد ہوگا جو ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد تک حکومتی معاملات چلائیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد جلدازجلد ہو، ہمیں اجتماعی کاوشوں سے ملک کو دوباہر راستے پر لانا ہوگا۔ غربت ختم کرنے کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق منصوبوں کا اجراء کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ وزیراعظم سے سعودی عرب کے نائب وزیر برائے امور خارجہ، ولید عبدالکریم الخرجی نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے سعودی حکومت اور کمپنیوں کو زراعت، کان کنی، آئی ٹی، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت دی۔
اسمبلیوں اور حکومت کا اپنی مدت پوری کرکے جانا اور قوم کا نئے انتخابات کے ذریعے سے حکمران منتخب کرنا جمہوریت کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان میں آج تک کی حکومت نے اپنی آئینی مدت 5سال پوری نہیں کی۔ آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ لیکن نظام میں انہیں اتنی لچک ضروری پیدا ہوگئی ہے کہ مسلسل چوتھی اسمبلی ہے جو اپنی مدت پوری کررہی ہے۔
یہ پہلی اسمبلی ہے جس میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ختم کی گئی اور ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ حکومت نے اس طرح کام کیا کہ اس کی تقریباً آدھی نشستیں خالی تھیں۔
البتہ گذشتہ دو بر س سے قوم نے جو معاشی اور سیاسی عدم استحکام بھگتا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ اب جبکہ حکومت اور اسمبلی اپنی مدت پوری کرچکی ہے ملک میں معاشی بہتری کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ لیکن اب بھی معاشی استحکام کا انحصار مستقبل میں سیاسی استحکام پر ہوگا۔ اگر خدانخواستہ انتخابات کے بعد سیاسی استحکام نہ آیا یا انتخابات کے انعقاد میں کوئی بے یقینی سامنے آئی تو معیشت کا سنبھلنا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہوجائے گا۔ دنیا بھر میں بے یقینی، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارا ملک اس وقت ہرلحاظ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ جس سے نکالنے کے لیے پہلا قدم بروقت صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات ہیں۔ جن پر کوئی سوال نہ اُٹھ سکے یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک اس وقت معاشی طاقتوں کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبہ دوبارہ چل پڑا ہے۔ ف ٹو کا آغاز ہوچکا ہے۔ سعودیہ عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بڑے بڑے معاہدے ہونے کو ہیں۔ یہ سب حوصلہ افزا اس سے کچھ بہتری کا بھی امکان ہے۔ لیکن حقیقی فائدہ اُسی وقت ہوگا جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا۔
اگر حالات میں بے چینی رہی۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار ہچکچاہٹ کا شکار رہے تو معاشی استحکام ناممکن ہوکر رہ جائے گا۔ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ حکومتی اتحاد کی دوبڑی جماعتیں اپنا اپنا رول بڑھانا چاہتی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں اُن کی الیکشن میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ اُس کی ایک وجہ حکومت کی گزشتہ ایک سالہ کارکردگی بھی ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی زندگی مشکل ہوچکی ہے اُن کے لیے ووٹرز کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لیے خطرات موجود ہیں کہ انتخابات کو حیلے بہانے سے لیٹ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ نئی مردم شماری، نگران حکومتوں کو مزید اختیارات اور دیگر معاملات کے باعث ایسا لگتا ہے کہ الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر درست نہیں اگر آئین سے انحراف کیا گیا تو یہ ملک جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ وہ کسی قیمت پر بھی الیکشن کے التوا کی جانب جانے سے گریز کریں تاکہ آنے والی حکومت پورے اعتماد کے ساتھ ملک کو استحکام کی جانب لے کر جاسکے۔ اگر ہم بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا چاہتے ہیں، معاشی استحکام کا خواب پوراکرنا چاہتے ہیں تو ملک سے ہیجانی کیفیت کا خاتمہ اور سیاسی استحکام لازم ہے۔ تاہم یہ صرف بروقت صاف شفاف انتخابات سے ہی ممکن ہے۔ خوش آئند عمل یہ ہے کہ اس وقت حکومت اور عسکری قیادت مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ گرین پولیوشن سمیت مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے ایسے حالات میں اگر انتخابات میں التوا یا غیرآئینی راستہ اختیار کیاگیا تو تمام جدوجہد اکارت ہوجانے کا خدشہ موجود ہے۔ لہٰذا واحد راستہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی طرف جانا چاہیے تاکہ سیاسی استحکام لاکر معاملات کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔