پنجاب حکومت کی نمائشی سیاست: گورننس نہیں، تشہیر کی دوڑ

[post-views]
[post-views]

پنجاب کی موجودہ حکومت، بالخصوص وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں، حکومتی کارکردگی کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے وہ ایک نئے طرز کی نمائشی سیاست کو جنم دے رہا ہے۔ سرکاری محکمے معمولی انتظامی فیصلوں اور روایتی نوعیت کے اقدامات کو بڑے بڑے ایونٹس میں تبدیل کر کے اس انداز میں پیش کر رہے ہیں گویا یہ کوئی انقلابی قدم ہو۔ یہ طرز عمل صرف ایڈمنسٹریٹو کارروائی نہیں بلکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی پروجیکشن پالیسی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد عوامی خدمت سے زیادہ قیادت کی تشہیر اور شخصیت پرستی کو فروغ دینا ہے۔

ہر حکومتی تقریب، چاہے وہ کسی پرانی اسکیم کی از سر نو رونمائی ہو یا کسی اسکول میں کمپیوٹرز کی تقسیم، اسے اتنے بڑے پیمانے پر پیش کیا جاتا ہے جیسے پورے نظام میں انقلابی تبدیلی آ گئی ہو۔ ان تقریبات کے پیچھے میڈیاکارزارها، سوشل میڈیا ٹیمز، اشتہارات، اور فوٹو دورات پر مبنی ایک پورا عمل دخل ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا اصل ہدف عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ ایک فرد کی شخصیت کو نمایاں کرنا اور ہر ادارے کو اسی شخصیت کا عکس بنانا ہے۔

ان ایونٹس پر ہونے والے اخراجات جب جانچنے کی کوشش کی جائے تو صورتحال مزید تشویشناک ہو جاتی ہے۔ لاکھوں روپے ایسی سرگرمیوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں جن کا براہ راست فائدہ عوام کو نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر کسی اسکول میں رنگ و روغن یا چند کمپیوٹر رکھ دینا ایک عام بات ہے، لیکن اسے اتنے بڑے پیمانے پر پیش کیا جاتا ہے جیسے نظام تعلیم میں کوئی بڑی تبدیلی آ گئی ہو۔ اس کے برعکس، اساتذہ کی تربیت، تعلیمی اصلاحات یا پالیسی سطح پر بہتری جیسے اہم پہلو بالکل نظر انداز کیے جاتے ہیں۔

یہ طرز سیاست مالی بے احتیاطی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص نفسیات کی بھی عکاسی کرتا ہے جسے “خودشیفتگی قیادت” کہا جا سکتا ہے۔ اس میں قیادت خود کو نظام، اداروں اور ریاست سے بلند سمجھنے لگتی ہے۔ ان کے اقدامات کا مقصد مسائل کا حل نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا بیانیہ مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہی بیانیہ اب مریم نواز کی سیاست کا مرکزی پہلو بنتا جا رہا ہے — ایک چمکتی ہوئی، اسٹیج پر کھڑی ہوئی قیادت جو ہر منظر میں موجود ہو، ہر اسکیم کی رونمائی کرے، اور ہر ادارے کو اپنی موجودگی کا پرتو بنائے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

پنجاب حکومت کے مختلف شعبہ جات میں یہی رجحان مسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کھیلوں کے میلوں سے لے کر تعلیم و صحت کے شعبوں کی کارکردگی رپورٹس تک، سب کچھ “ایونٹس” کی شکل میں بدل دیا گیا ہے۔ پرانی اسکیموں کو نیا نام دے کر دوبارہ لانچ کرنا اور پھر ان پر الگ سے تشہیری مہم چلانا اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل کا استعمال شفاف نہیں اور نہ ہی پائیدار نتائج پر مبنی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد صرف وقتی داد حاصل کرنا ہے نہ کہ دیرپا بہتری۔

زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں، ان کی تفصیلات نہ تو عوام کے سامنے آتی ہیں اور نہ ہی میڈیا میں زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ حکومت نہ یہ بتاتی ہے کہ کسی ایونٹ یا تشہیری مہم پر کتنا خرچ ہوا، اور نہ ہی یہ کہ وہی رقم کسی اور اہم شعبے میں کس قدر بہتر نتائج دے سکتی تھی۔ جمہوری نظام میں شفافیت اور احتساب بنیادی اصول ہوتے ہیں، مگر یہاں تاثر اور پروجیکشن کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ جب ہر معمولی قدم کو بڑی تقریب میں بدلا جائے، اور ہر عام سی سروس کو تاریخ ساز بنا کر پیش کیا جائے، تو عوام میں سیاست اور حکومت کے بارے میں بے حسی جنم لیتی ہے۔ عوام یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حکومت صرف دکھاوے کی حد تک متحرک ہے، جب کہ ان کے اصل مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ اس بے اعتمادی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکمرانی کی اصل روح — خاموش، موثر اور مسلسل خدمت — پس منظر میں چلی جاتی ہے۔

اگر حکومت واقعی عوام کی بہتری کو مقدم رکھنا چاہتی ہے، تو اسے اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ کارکردگی کو بنیاد بنانا ہو گا، نہ کہ اس کی تشہیر کو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل محدود ہیں، وہاں ہر سرکاری پیسہ قیمتی ہے۔ اس کا استعمال صرف وہاں ہونا چاہیے جہاں اس کا براہ راست اور پائیدار فائدہ عوام تک پہنچے۔ قیادت کی اصل ذمہ داری اپنی شخصیت کو پروجیکٹ کرنا نہیں بلکہ ریاستی نظام کو مؤثر اور مضبوط بنانا ہے۔

موجودہ صورتحال میں پنجاب حکومت ایک غیر متوازن اور تشہیری حکمرانی کی مثال بن چکی ہے، جہاں ادارے، بجٹ اور کارکردگی سب کچھ قیادت کی تصویر اور بیانیے کے تابع ہو چکا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ اس سے نظام کمزور ہوتا ہے، عوام بدظن ہوتے ہیں، اور ریاستی مشینری اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہے۔ اگر واقعی تبدیلی مقصود ہے تو حکمرانی کے ماڈل کو عوامی خدمت اور شفافیت کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos