سیاسی بلوغت کی ضرورت — قومی مصالحت کا وقت آ گیا؟

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

پاکستان اس وقت محض سیاسی بحران کا شکار نہیں، بلکہ ایک ہمہ جہتی قومی زوال کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایک ایسا بحران جو صرف معیشت، عدلیہ یا انتظامیہ کے دائروں تک محدود نہیں، بلکہ اس نے قوم کے اجتماعی شعور، سماجی ہم آہنگی اور ریاستی وقار کو بھی گہری ضربیں پہنچائی ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بےحد اہم ہو چکا ہے کہ کیا اگر تمام سیاسی قیادت اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک میز پر آ جائے، تو کیا واقعی ہم اس بحران سے نکل سکتے ہیں؟ کیا مفاہمت، مکالمہ اور اتحاد ہی وہ نسخہ ہے جو قوم کی بکھرتی سانسوں کو سہارا دے سکتا ہے؟ یا یہ محض ایک خواب ہے جو زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ نہیں؟

قومی مصالحت کا مفہوم

مصالحت کو بعض حلقے کمزوری، جھکاؤ یا وقتی سیاسی مصلحت سمجھتے ہیں، حالانکہ حقیقی مفہوم اس کے برعکس ہے۔ قومی مصالحت وہ شعوری فیصلہ ہے جو قوموں کو داخلی زخموں پر مرہم رکھنے، ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور مستقبل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یہ وہ اجتماعی دانش ہے جس میں دشمن کو نہیں، بلکہ اختلاف کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں انا کی جگہ فہم و تدبر لیتا ہے، اور سیاست اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ خدمت کا عہد بن جاتی ہے۔

مصالحت کی راہ میں رکاوٹیں

اگرچہ مفاہمت کا تصور قابلِ تحسین ہے، مگر جب ہم زمینی حقیقت کو دیکھتے ہیں تو راستہ کانٹوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ سیاسی فضا میں جس سطح کی عدم برداشت، بغض، کردار کشی اور سیاسی انتقام کو پروان چڑھایا گیا ہے، وہ کسی بھی قسم کے مکالمے کو فوراً رد کر دیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے، اور ہر مخالف کو غدار، ایجنٹ یا مجرم قرار دینا معمول بن چکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال نے قومی بیانیے کو مزید زہر آلود کر دیا ہے۔ ہر شخص اپنی پسند کی جماعت کو سچائی اور باقی سب کو جھوٹ سمجھتا ہے۔ یہ رویہ صرف سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ معاشرتی دراڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جب قوم کی سوچیں ٹکڑوں میں بٹ جائیں تو پھر کسی اجتماعی سمت کا تعین تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

معاشی ابتری، مہنگائی، بےروزگاری اور بداعتمادی نے عوام کو بھی بدظن کر دیا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سیاست محض اشرافیہ کا کھیل ہے جہاں ان کی بھلائی سے زیادہ ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سیاسی قیادت کی کسی کوشش پر اعتماد کرنا ان کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔

کیا اب بھی امید باقی ہے؟

ہر تاریکی میں امید کی ایک کرن ضرور موجود ہوتی ہے۔ آج اگر تمام سیاسی قائدین واقعی ریاست کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھ لیں، تو وہ ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہو سکتے ہیں۔ اس ایجنڈے میں آئین کی بالادستی، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات، معاشی پالیسیوں میں تسلسل، عدالتی اور تعلیمی اصلاحات، اور سیاسی انتقام کی نفی شامل ہو سکتی ہے۔
اس عمل میں میڈیا، سول سوسائٹی، علمی طبقہ، اور عدلیہ کو بھی ذمہ دار کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ یہ مصالحت محض وقتی یا کاغذی نہ ہو، بلکہ ایک دیرپا اور مخلص راستہ بن سکے۔

عالمی مثالیں

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں، تو ان کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ مکمل بگاڑ کی طرف چلی جائیں، یا پھر اجتماعی دانش اور مفاہمت کے ذریعے دوبارہ اپنا قبلہ درست کریں۔
جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے سچائی اور مفاہمت کمیشن کے ذریعے ایک نسل پرست نظام کے بعد پوری قوم کو ایک نئی راہ پر ڈالا۔ روانڈا میں نسل کشی کے بعد مکالمے اور انصاف کے امتزاج نے زخموں پر مرہم رکھا۔ چلی، کولمبیا، آئرلینڈ — سب نے کسی نہ کسی مرحلے پر اجتماعی معافی، سچائی، اور مصالحت کو اپنایا اور بکھرے ہوئے وجود کو یکجہتی میں بدلا۔

نتیجہ: مصالحت — خواب یا واحد راستہ؟

آج پاکستان کو کسی اور چیز سے زیادہ سیاسی بلوغت اور اخلاقی بصیرت کی ضرورت ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم نفرت، انتقام، اور تفرقے کی سیاست کو ترک کر کے جمہوریت، برداشت، اور مفاہمت کے راستے پر گامزن ہوں۔ مصالحت بزدلی نہیں بلکہ بہادری ہے۔ یہ انکار کا نہیں، اعتراف کا عمل ہے۔ اس میں اقتدار کی کرسی سے زیادہ ریاست کا استحکام مقدم ہوتا ہے۔

اگر ہم نے وقت پر یہ فیصلہ نہ کیا، تو نہ صرف سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ کھو دیں گی بلکہ ریاستی ڈھانچے میں وہ دراڑیں پڑیں گی جو مستقبل میں کسی المیے کو جنم دے سکتی ہیں۔

یہ وقت فیصلے کا ہے۔ یا ہم ایک ہو کر آگے بڑھیں گے، یا تقسیم ہو کر زوال کی اندھی کھائی میں گر جائیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos