سیاسی کشیدگی عوامی ردعمل اور سیاحت

Editorial: Pakistan has tremendous potential in Village Tourism. The villages in mountains, deserts and other parts can be hot spots for tourism. A good read to know facts.

ادارتی تجزیہ

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی کشیدگی نے ایک غیر متوقع پہلو اختیار کیا ہے، جس کا اثر براہِ راست بین الاقوامی سیاحتی رجحانات پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں عوامی سطح پر پیدا ہونے والے جذباتی ردعمل کے نتیجے میں متعدد بھارتی سیاحوں نے ترکی اور آذربائیجان کے سفر منسوخ کرنا شروع کر دیے ہیں، کیونکہ ان ممالک نے حالیہ تنازعے میں پاکستان کے موقف کی سفارتی سطح پر تائید کی۔ معروف سفری پلیٹ فارمز کے مطابق، یہ عمل عالمی سیاحت کے منظرنامے میں نمایاں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے، جہاں بین الاقوامی تعلقات اب صرف حکومتی پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ عام شہریوں کے انفرادی فیصلوں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔

یہ پیش رفت بین الاقوامی سیاست اور عوامی جذبات کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلق کی عکاسی کرتی ہے، جو نہ صرف پیچیدہ ہو چکا ہے بلکہ غیر متوقع سمتوں میں ترقی کر رہا ہے۔ ریاستیں اگرچہ اپنی خارجہ پالیسی کو تزویراتی مفادات کی بنیاد پر مرتب کرتی ہیں، لیکن جب اس کے اثرات براہ راست صارفین کے رویوں اور نجی فیصلوں تک پہنچتے ہیں تو یہ بین الاقوامی نظام میں ایک نئے قسم کی پولرائزیشن (قطبیت) کو جنم دیتا ہے۔ اس صورت حال میں قوم پرستی کا استعمال ایک عوامی ہتھیار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں حتیٰ کہ غیرسیاسی شعبے جیسے کہ سیاحت بھی سیاسی اظہار اور احتجاج کا میدان بن جاتے ہیں۔

اس تناظر میں، بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کی بنیاد ایک سنگین واقعے سے جڑی ہے، جب بھارتی زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں ایک مہلک حملے کے بعد نئی دہلی نے اس کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا۔ اگرچہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی، تاہم بھارت کی جانب سے کیے گئے سرحد پار حملوں نے کشیدگی کو مزید ہوا دی۔ بعد ازاں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا، لیکن باہمی اعتماد کی فضا بدستور کمزور ہے۔

ترکی اور آذربائیجان کی طرف سے پاکستان کی حمایت تاریخی اور مذہبی روابط کے تناظر میں قابلِ فہم ہے۔ تاہم، بھارت کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کے تناظر میں، اندرونی عوامی ردعمل اب بین الاقوامی سطح پر تعلقات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر نرم طاقت کے ذرائع جیسے سیاحت کے شعبے میں۔ اگرچہ یہ بائیکاٹ علامتی نوعیت کے ہیں، لیکن یہ ایک وسیع تر رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں خارجہ پالیسی، قومی تشخص، اور صارف رویے باہم منسلک ہو رہے ہیں۔

یہ طرزعمل اگرچہ قلیل مدتی قومی یکجہتی کا احساس پیدا کر سکتا ہے، لیکن طویل مدتی تناظر میں یہ سفارتی خلیج کو مزید گہرا کر سکتا ہے اور تعمیری مکالمے کے امکانات کو محدود کر دیتا ہے۔ ایک مربوط اور بین الریاستی دنیا میں، اختلافات کے باوجود تعمیری روابط کا فروغ اور مکالمہ ہی وہ راستہ ہے جو باہمی اعتماد، اقتصادی تعاون اور خطے میں پائیدار امن کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ معاشی بائیکاٹ اور ردعمل کی سیاست عالمی سفارت کاری کو ذاتی جذبات کی بنیاد پر محدود کر دینے کا خطرہ رکھتی ہے، جس سے نہ صرف ریاستی تعلقات متاثر ہوتے ہیں بلکہ عوامی مفادات بھی زد میں آ جاتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos