Premium Content

روح پیاسی کہاں سے آتی ہے

Print Friendly, PDF & Email

جون ایلیا اپنے عہد کے اہم اور منفرد شاعر تھے۔ آپ ذرا مختلف اور انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے الگ شناخت رکھتے تھے جو بہت سراہے جاتے تھے، جن کی شاعری آج بھی پوری طرح زندہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جون ابھی زندہ ہیں۔ وہ کہیں گئے نہیں بلکہ اپنی شاعری سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

جون ایلیا سادہ، لیکن تیکھی تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں نہایت گہری اور شور انگیز باتیں کہنے والے ہفت زبان شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار، دانشور اور بالاعلان نفی پرست اور انارکسٹ جون ایلیا ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری نے نہ صرف ان کے زمانہ کے ادب نوازوں کے دل جیت لئے بلکہ جنھوں نے اپنے بعد آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے زبان و بیان کے نئے معیارات متعین کئے۔ جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔ وہ باغی، انقلابی اور روایت شکن تھے لیکن ان کی شاعری کا لہجہ ا تنا مہذب نرم اور غنائی ہے کہ ان کے اشعار میں میر تقی میر کے نشتروں کی طرح سیدھے دل میں اترتے ہوئے سامع یا قاری کو فوری طور پران کی فنی خوبیوں پرغور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔

روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے

ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا
بد حواسی کہاں سے آتی ہے

وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا شناسی کہاں سے آتی ہے

ایک زندان بے دلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے

تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے

دل ہے شب سوختہ سو اے امید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے

میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نراسی کہاں سے آتی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos