رن مرید اور زن مزید


ادبی دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ اردو ادب کا دامن نقاد خواتین سے خالی نہیں ۔ دو سکالر خواتین نے انتہائی اچھوتے مو ضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔ موضوع منفرد بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔مقالے کا عنوان ہے ” مرد ، اجسام ، اقسام ، اصنام اور وغیرہ وغیرہ ” آج کے کالم میں مقالے کے چیدہ چیدہ نکات پیش کیے جائیں گے۔ تفصیلی بحث آئندہ دنوں میں کی جائے گی۔ محترمہ حیات جا وداں یز مانی اور محترمہ ثمینہ سیمی بے زبانی مشترکہ مقالے میں لکھتیں ہیں:- “خواتین کی اقسام نہیں ہوتیں ۔ ہر خاتون بنیادی طور پر ماں ہوتی ہے۔ اقسام مردوں کی ہوتی ہیں اور اتنی ہوتی ہیں کہ آج تک اہل علم گن نہیں پائے” ۔ سلف میں کئی اہل علم حضرات نے عاشقوں اور فاسقوں کی اقسام پر روشنی ڈالی ہے۔کئی خواتین لکھاریوں نے بھی مردوں کی اقسام سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔غالب گمان ہے مردوں کی دو اقسام ہیں:- رن مرید اور زن مزید”۔رن مرید حضرات اور زن مزید حضرات تعاون کی اعلی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ایس ایچ او صاحب ہر گزرتی ہوئی گاڑی،جس پر مقررہ حد سے زیادہ سواریاں بٹھائی ہوئی تھیں،کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کو اتار کر قرار واقعی سزا دے رہے تھے۔لوگ اپنا تعارف کرواتے تھے، کسی کا حوالہ دیتے تھے مگر وہ کسی کو استثنا نہیں دے رہے تھے۔چند افراد نے بتانے کی کوشش کی کہ وہ مقامی پیر صاحبان کے مرید ہیں مگر ایس ایچ او صاحب کےپتھر دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ مشق ستم سرعام جاری تھی۔ایک ڈرائیور نے انتہائی آہستہ آواز میں ایس ایچ او صاحب کے کان میں سحر پھونکا “جناب میں رن مرید ہوں” ایس ایچ او صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، گلے سے لگایا ،تا دیر لگائے رکھا ۔ بٹھایا ، کھلایا پلایا اور اپنے پیر بھائی کو پورے احترام کے ساتھ رخصت کیا۔رن مرید حضرات ایک دوسرے سے جن جن معاملات میں تعاون کرتے ہیں ، ان کی تفصیل میں جانا کالم کا موضوع نہیں کیونکہ کالم تو کالم ہوتا ہے جب کہ رن مرید حضرات کے باہمی تعاون پر کتابوں کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔یہ کہنا کہ مرد حضرات فقط رن مرید ہی ہوتے ہیں اور اگر رن مرید نہ ہوں تو زن مزید ہوتے ہیں، یہ حقیقت کی ترجمانی نہیں، بھلے انتہائی قلیل تعداد میں سہی ، آج بھی ایسے حضرات موجود ہیں ، جو نہ رن مرید ہیں نہ زن مزید۔ان کے دکھ عجیب ہوتے ہیں، نہ وہ سنا سکتے ہیں نہ ہم سمجھ سکتے ہیں۔عورت ستی ہو تو پوری دنیا کو پتہ چل جاتا ہے ،مرد اگر زندہ درگور بھی ہوجائے تو پتہ تک نہیں ہلتا۔عالمی ادب میں عشقیہ داستانوں کی کوئی کمی نہیں ۔ہیر رانجھا
مرزا صاحبہ،سسی پنوں،سو ہنی ماہیوال، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا اور رومیو جولیٹ فقط چند مثالیں ہیں۔ شوہر کی بیوی سے محبت کی بابت اردو لٹریچر میں زیادہ مواد نہیں ملتا۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھے جانے کی گنجائش ہے۔امید ہے کہ ادیب حضرات اس موضوع کو بھی اپنے قلم کی دسترس میں لائیں گے۔شوہر پرست خواتین اور رن مرید شوہروں کے قصے تو عام ہیں مگر جو لوگ صدق دل سے بیوی کی خدمت سنت رسول سمجھ کرکرتے ہیں ، ان کو سراہنے میں ادیب حضرات نے ہمیشہ کنجوسی سے کام لیا ہے۔ راقم الحروف کو مظفر گڑھ کے ایک کالج کا وہ عظیم استاد ہمیشہ یاد رہتا ہے جس کی بیوی ایک طویل مدت سے صاحب فراش تھی۔چل پھر نہیں سکتی تھی۔مگر وہ بیوی کے تمام کام خود سرانجام دیتا تھا ۔آج بھی اس کی یہی روٹین ہے۔بیوی کے تمام تر اصرار کے باوجود دوسری شادی نہیں کی۔ معاشرہ ان خواتین و حضرات کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے جنہیں پینتالیس سال کی عمر کے بعد بھی میں محبت ہوجاتی ہے اور محبت بھی کسی نوخیز سے نہیں بلکہ پختہ عمر والوں سے۔ بھلے مرد کی بیوی وفات پاچکی ہو،عورت بھی بیوہ ہو ۔ دونوں کے بچے ہوں اور نہ عقل کے کچے ہوں، نہ من کے سچے ہوں ، خود غرض ہوں۔ رنڈوا صاحب اور بیوہ خاتون ، باقی عمر ایک شعر کے سہارے گزار دیتے ہیں:-
انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے
کالم نگار کو جھنگ کا وہ ہونہار سپوت بھی یاد ہے جو محبت کی شادی کیا کربیٹھا، گھر والے دشمن ہوگئے ۔ عاق کردیا۔اپنی بلا سے سپرد خاک کردیا۔تقدیر آزما رہی تھی ۔ بیوی امید سے ہوئی تو دنیا بہت خوبصورت لگنے لگی۔ ہائے افسوس کہ زچگی کے دوران زوجہ انتقال کرگئی۔ہمارا دوست پھر بھی جیتا رہا، زندگی کا زہر ہنس کر پیتا رہا کیونکہ بیٹا سلامت تھا، زندگی کی علامت تھا، کسے خبر تھی آنے والا وقت قیامت تھا۔تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ بچے میں خون کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ گھر بک گیا ، دکھ نہ ہوا ، جو کچھ پاس تھا ،سب علاج میں جھونک دیا۔ جب بچہ بھی دنیا سے گیا تو ہمارا دوست ٹوٹ گیا ۔ ایسا ٹوٹا کہ آج تک جڑ نہیں پایا، زندگی کے راستے پر مڑ نہیں پایا ۔کنواری عورت اور کنوارے مرد کی وفا کے قصے امر ہوچکے ہیں ۔ خواجہ فرید نے کیا خوب فرمایا:-
عزرائیل آیا سسی ول
لین سسی دی جان اے
جان سسی وچ نظر نہ آوندی
او تےلے گیا کیچ دا خان اے
قسم قرآن اے
سوہنی کا کچے گھڑے پر چناب پارکرنا ہماری لوک شاعری کا حصہ ہے ۔ ہیر رانجھا آج بھی ہمارے گھر گھر میں گائی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے ۔امید ہے کہ شاعر اور نثر نگار ، شوہر کی اپنی بیوی سے محبت کو بھی ادب کا حصہ بنائیں گے۔ دور جاہلیت کی عرب شاعری میں زوجین کی باہمی محبت کی بابت عمدہ اشعار ملتے ہیں۔ ک عربوں کے شادی بیاہ کے رواج ہمیشہ سے انتہائی سادہ رہے ہیں۔ہمارے ہاں خواتین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جس گھر میں ان کی ڈولی جائے گی ، جنازہ بھی اسی گھر سے نکلے گا۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے افراد تقریبا ہم عمر ہوں گے۔ طلاق اور خلع کو انتہائی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔اسلام سے قبل بھی عرب معاشرے کے افراد تکلفات سے مبرا تھے ۔ شادی کسی بھی عمر میں کی جاسکتی تھی۔کسی بھی عمر والے یا والی سے کی جاسکتی تھی۔ طلاق بھی آسان تھی ۔عورت خلع بھی لے سکتی تھی۔دوسری شادی بھی مرد یا عورت کے لیئے مسئلہ نہیں تھی۔آج کی عرب دنیا بھی مرد و زن کوباربار رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔شوہر کی محبت پر بیوی فخر کرتی ہے۔ادیب بھی انتہائی فاخرانہ انداز میں ان کی محبت کو بیان کرتے ہیں۔شوہر کی اپنی مرحوم بیوی سے محبت پر قلم اٹھایا جائے تو دل کرتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت بی بی خدیجہ سے محبت کا تذکرہ کیا جائے۔رسول پاک ہر موقع پر حضرت خدیجہ کو یاد رکھتے تھے۔آنکھیں اکثر حضرت خدیجہ کی یاد میں نم ہو جاتی تھیں۔منقول ہے حضرت عائشہ پوچھتیں:-“آپﷺ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ رحمت العالمین حضرت خدیجہ کا نام لیتے “۔مغربی مستشرق نے لکھا “جو شخص دو شیزہ کا دل رکھنے کے لیے جھوٹ نہیں بول سکتا ،وہ اللہ تعالی کی ذات کی بابت کیسے جھوٹ بول سکتا ہے”؟آپﷺ نے ہمیشہ حضرت خدیجہ کے ساتھ اپنی محبت کا والہانہ اظہار کیا۔آئیے! اپنی ازواج کے حقوق پہچانیں، انہیں بتائیں کہ ان سے محبت کی جاتی ہے ۔ مت شرمائیں ، دنیا کو بھی بتائیں کہ آپ کی بیوی آپ کی محبوبہ ہے، یہی اسلامی روایت ہے۔ ۔۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos