سفر منزل شب یاد نہیں

[post-views]
[post-views]

ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل  نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری دونوں میں اک عجیب طرح کی سحر انگیزی پائی جاتی ہے۔ اپنی روائیتی لفظیات کے باوجود  انھوں نے غزل کو اپنی طرز ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا۔ انھوں نے نظریاتی میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی اس لئے ان کا میدان شعر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے جس میں بہرحال مرکزی حیثیت عشق کی ہے۔ ان کی تمام شاعری اک حیرت کدہ ہے جس میں داخل ہونے والا دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔

سفر منزل شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos