پاکستان اس وقت معاشی بحران، زرمبادلہ کی کمی، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سنگین مسائل سے دو چار ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، بجلی ،گیس کے نرخوں میں اضافہ اور روپے کی بے قدری سے جہاں دیگر شعبے متاثر ہوئے ہیں وہاں پر پیداواری سیکٹر بھی مشکل ترین صورت حال سے دوچار ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔برآمدات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
رواں مالی سال کے چھ ماہ کے دوران ان صنعتوں کی پیداوار میں 3.68فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2022 آٹو موبائل سیکٹر کی پیداوار میں 30.23فیصد، ٹیکسٹائل کے شعبے میں 13.6 فیصد، لکڑی کی مصنوعات میں 66.01فیصد ، آئرن سٹیل مصنوعات میں 2.31فیصد، پیپر اور بورڈ کی پیداوار میں 2.81، کیمیکلز میں 1.13فیصد، فارماسیوٹیکل مصنوعات کی پیداوار میں 21.56فیصد، تمباکو کے شعبے کی پیداوار میں 23.51 فیصد، مشینری اور آلات کے شعبے میں 47.85فیصد کمی سامنے آئی۔صرف دسمبر میں ٹیکسٹائل صنعت کی پیداوار میں 21.24فیصد اور مشینری اور آلات کے شعبے میں 77.86 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تاہم اس مدت کے دوران یہ بات کسی حد تک حوصلہ افزا رہی کہ نومبر کی نسبت دسمبر 2022 میں آئرن کی صنعت میں 0.2فیصد، فوڈ کے شعبے کی پیداوار میں 11.05فیصد اضافہ ہوا۔ فرنیچر کی مصنوعات کی پیداوار 182.35فیصد بڑھی۔
صنعتیں کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کا فروغ اور پیداواری صلاحیت ،برآمدات میں اضافہ ملکی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار صنعتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ صنعت کے اضافہ سے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو روزگار کےمواقع میسر آتے ہیں، جس سے جی ڈی پی اور جی این پی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کسی بھی ملک کے لیے بہت خوش آئند ہوتا ہے۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ منصوبہ ہماری معیشت کے ساتھ آکاس بیل کی طرح چمٹا ہوا ہے اور پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کا کلچر ملک میں سیاسی اقتصادی استحکام کی نوبت نہیں آنے دیتا۔