سرور ، نور، مجبور ،مزدوراور قصور


اک مدت سے اپنے چاہنے والوں کے لئے وہ مکمل سرور تھی ، نورتھی ،اس کی ہر ادا بھرپورتھی۔ درحقیقت وہ حالات سے وہ مجبورتھی۔ لگتی اپسراتھی مگر وہ بھی ایک مزدور تھی، آج تو ذہنی تھکن سے چور چورتھی، اشک ندامت سے شرا بور تھی۔ احساس ہو رہا تھا کہ وہ جس راستے پہ چلی جا رہی تھی وہ تو اس کا راستہ ہی نہیں تھا: ۔
؎اک عمر گزار آئے تو محسوس ہوا ہے
اس طرح تو جینے کاارادہ ہی نہیں تھا
پندرہ سال پہلے اک معصوم سی لڑکی چھوٹی سی تحصیل سے تعلیم حاصل کرنے یونیورسٹی آئی تھی۔ ماں خلع لے چکی تھی۔ باپ بدکار بھی تھا اور بے کار بھی ۔ ماں کی تنخواہ کھا جا تا تھا ۔ ماں برداشت کرتی رہی ۔ اک دن اس نے جب بڑی بیٹی کی تعلیم ختم کروا کر اپنے نشئی بھتیجے سے شادی کرنے کی بات کی تو ماں کی ممتاجاگ اٹھی ۔ وہ خود تو جیتے جی مر چکی تھی لیکن اپنی بچیوں کی زندگی کسی عفریت کو نگلنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ مردانہ وار لڑائی کیا ہوتی ہے یہ تو شاید مر د حضرات بھی نہ جانتے ہو ں ۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی ماں جنگ کرنے پہ آتی ہے تو فتح ہمیشہ ممتا کی ہوتی ہے ۔ خلع لیا ، نوکری کی، بچوں کو کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ بیٹی کا داخلہ دار الحکومت کی بہترین یونیورسٹی میں کروایا۔بیٹی معصوم اور سادہ دل تھی۔ نہ لالچی تھی نہ چا لاک۔ قسمت چند لوگوں کو باقیوں سے سوا آزماتی ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


بیٹی ہمیشہ سے اوسط درجے کی طالبہ رہی تھی۔ تھوڑا پڑھتی لکھتی تھی ،تھوڑا بہت سیر و تفریح کی شوقین تھی ۔بڑے بڑے خواب نہیں دیکھے تھے، اللہ تعالیٰ کا شکر تھا بڑے بڑے عذاب بھی نہیں دیکھے تھے۔ ماں ہمیشہ ڈھال بن کر ہر وبال سے بچا لیتی تھی۔ اب مگر وہ اکیلی تھی ،ان لڑکیوں کی سہیلی تھی، جن کے خواب ہمالیہ سے اونچے تھے ،” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست: “۔ وہ بھی انہی کے رنگ میں رنگی گئی اور کافی عرصہ رنگی رہی ۔ خودکو تباہ کرلیا اور ایک مدت ملال کئے بغیر گزرگئی۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے وجود کو مٹی مٹی کرلیا :۔
متاع ہستی کا وہ ستارا
نہ تم نے دیکھا ، نہ میں نے دیکھا۔
تمہارے آنچل کی نرم چھاؤں،
تمہاری ممتا کا ٹھنڈا سورج
وہ چاند چمکا، وہ بات لپکی
گھرا بادل، وہ بجلی چمکی،
وہ تم جو عرفی کی اک غزل تھیں،
وہ تم جو سعدی کا شعر رنگیں،
وہ تم جو رباعی خیام کی یا
فراز کے دل سے پھوٹی شبنم
سی اک غزل کا اچھوتا احساس ،
تم ہی تھیں نا
تو اب بتاؤ، کیسے بتاؤں
کہ وہ خزینہ جو میں نے
مٹی میں پور ڈالا،
کہاں سے ڈھونڈوں ؟
کہاں سے ڈھونڈوں ۔ ؟
چند دنوں سے اپنا آپ اجنبی لگنے لگا۔ اک دن کمرے میں بیٹھے بیٹھے اشک آنکھوں سے باہرآنے لگے تو قرآن مجید اٹھایا،سینے سے لگایا، سکون پایا کیونکہ دلوں کا اطمینان فقط اللہ تعالی ٰ کے ذکر میں ہے۔توبہ کی اور مثالی توبہ کی۔ قرآن کا مطالعہ کیا تو دنیا کی حقیقت آشکار ہوئی۔ احساس ہواکہ کارخانہ قدرت میں تمام انسان مزدور ہیں ۔ بھلے کوئی جاگیردار ہے یا سرمایہ دار ، افسر یا سیاستدان سب جانچے جارہے ہیں ۔روز جزا سب کو مزدوری دی جائے گی۔ زرہ برابر نیکی بھی دیکھادی جائے گی اورذرہ برابر برائی بھی۔ جسم کے اعضاء بغاوت کردیں گے۔ گواہی دیں گےاور سچی گواہی دیں گے ۔ اللہ پاک رحمان رحیم ہے تو جبار و قہار بھی ہے اور عادل و قادر بھی۔اللہ تعالیٰ کی رحمت سے صرف نادان ہی مایوس ہوتے ہیں۔ وہ گنہگارتھی مگر نادان نہیں تھی۔ خالق کائنات سے محبت کا طریقہ سمجھ آگیا۔ خالق کائنات کا پسندیدہ انسان بننے کا رازبھی پتہ چل گیا ۔اسوہ حسنہ پر عمل شروع کردیا ۔ نوجوان لڑکیوں کو درس دینا شروع کردیا :۔
؎ بجھے ہوئے تم چراغ لے کر۔۔۔
مجھے کیا رستہ دکھا رہے ہو۔۔۔
یہ جھوٹے سکے، یہ نوٹ جعلی۔۔۔
وقار و عزت کے بالمقابل۔۔۔
جو میں نے میلی سی اپنی چادر میں۔۔۔۔
سچے موتی کی صورت سنبھال رکھے۔۔۔۔
اسی کی قیمت لگا رہے ہو۔۔۔۔۔
تو اے خدائی کے دعوے دارو۔۔۔۔
میں بھوک سہہ لوں گی،پیاسی جی لوں گی۔۔۔
مگر چراغوں کی کالکوں سے ۔۔۔۔
نہ اپنا دامن سیاہ کروں گی۔۔۔
بھوک اور پیاس،مفلسی ،افلاس سب ہی تھا۔۔۔
لیکن کوئی شکست ہراساں نہ کر سکی۔۔۔۔۔
دشمن کی منجنیق اگلتی رہی ہے آگ۔۔۔۔
لیکن میرے ارادے پریشاں نہ کر سکی۔۔۔۔
عالمگیریت اور جدیدیت کے زیر اثر ہمارا معاشرہ ہر لمحہ بدل رہا ہے :-
؎آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
قرآن مجید میں شیطان کے دوستوں کا احوال انتہائی تفصیل سے بتایا گیا ہے ۔حزب الشیطان کا پسندیدہ کام مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا ہے ۔اسلام میں زنا کرنے کا تصور تک نہیں ۔مسلم مرد اور عورت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کے قریب تک نہ جائیں گے ۔ خلوت اور جلوت میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہماری خواتین کی شرم وحیاء مثالی ہوتی تھی تو ہمارے حضرات بھی کسی غیر عورت پر نگاہ ڈالنا گناہ کبیر ہ سمجھتے تھے۔ عزت سانجھی ہوتی تھی۔ ماں بہن کی تکریم ہر کوئی کرتا تھا ۔عورت اور مرد اپنے اپنے دائرہ کارمیں خوش رہتے تھے۔ بدقسمتی سے انٹرنیٹ کے ظہوراور سوشل میڈیاکے دوردورے کے بعد شرم وحیا کے صدیوں پرانے معیار بدل رہےہیں :- ” تھا جو ’ناخُوب، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا “
اکبر الٰہ آبادی چند خواتین کو بے پردہ دیکھ کر تلملااٹھےتھے ،مردوں کی عقل کا ماتم کرنے لگے تھے۔ اگر وہ آج کے دور میں ہوتے تو شرم سے جہان فانی سے کوچ کرجاتے اور جاتے جاتے صنف غیرنازک کو یہ نصیحت کرنا نہ بھولتے “ایسی زندگی سے تو موت اچھی ” ۔موت کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں کیونکہ ہمارے شاعر پہلے ہی کہہ گئے تھے :- ” مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے “۔
“کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر” ، آج وہ پب جی پر غیر مردوں سے دوستیاں کررہی ہیں۔ ایک ایک لمحے روداد کبھی انسٹا پر، کبھی ٹویٹر پر، کبھی فیس بک غرض یہ کہ ہر دستیاب پلیٹ فارم پر شیئر کررہی ہیں ،نہ والدین کی نہ بہن بھائیوں کی، نہ اپنی، کیئر کررہی ہیں ، دوستی کے لئے نہ کسی کو سپیئر کر رہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ تبدیلیوں کی نہیں ، تباہی کی زد میں ہے، نوجوان نسل نہ جانے کس حدمیں ہے، نہ کوئی تفریق نیک و بد میں ہے،ہر کوتا ہ قامت عوج کے قد میں ہے،انجم کہتا ہے: ہماری بقا شیطانی قوتوں کے ردمیں ہے۔ جو بات کالم نگار کا کمپیوٹر آپریٹر انجم جانتا ہے وہ پوری قوم جانتی ہے لیکن اس فتنہ کے تدارک کے لئے سنجیدہ کاوشیں نہیں کی جارہیں۔ قصور کس کا ہے ؟ شاید ہم سب جانتے بھی ہیں اور نہیں بھی جانتے ۔تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے وہ تباہ برباد ہو جاتی ہے۔ہمیں اللہ کے غضب کو دعوت نہیں دینی چاہیے۔ساحر کا سوال تھا:- “ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں”؟ یہی سوال انجم کا بھی ہے ، ہمارا بھی ہے۔ ہے کوئی جواب کسی کے پاس؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos