Premium Content

‏سیاسی جماعتیں ، ورکرز کا استحصال اور الیکٹیبلز

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان کے سیاسی نظام میں جتنا استحصال سیاسی ورکرز کا ہوتا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی۔ سیاسی عقوبات ہوں یا سیاسی تشدد، سیاسی قربانیاں ہوں یا وضع داریاں، یہ ورکرز ہی ہیں جنکو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے جبکہ الیکٹیبلز اور سرمایہ دارانہ امیدواران کو ہمیشہ نوازا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی ورکرز ہی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

ہمارے سیاسی نظام میں سیاسی ورکرز سے وضع داری اور سیاسی قربانی کی ہمیشہ توقع کی جاتی ہے۔ اس توقع کے برعکس اگر کوئی سیاسی رکن اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرے تو اسکو غدار تک کہا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں آمریت اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ سیاسی جماعت کے اندر اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا سیاسی گناہ ہے اور مزید یہ کہ اگر سیاسی لیڈر کا حکم نہ مانا جائے تو اسکو ڈسپلن کے نام پر پارٹی سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔

جبکہ الیکٹیبلز اور بااثر امیدواران کے لیے یہ تمام قوانین بالائے طاق رکھے جاتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں سیاسی ورکرز اور الیکٹیبلز کے ساتھ سلوک میں واضح تفریق کی جاتی ہے۔ ایک طرف سیاسی رکن جماعت کا ایندھن ہے تو دوسری طرف الیکٹیبل جماعت کی آنکھ کا تارہ ہے۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

پاکستان کی سیاست پر اشرافیہ کا قبضہ ہے ۔ تاہم سیاسی ورکرز کی منزل تک متوسط طبقے کی نمائندگی ہے۔ اس ضمن میں کچھ امیدواران کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ناروال سے طارق انیس گجر جو کہ تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں، وہ تحریک انصاف سے اپنی آٹھ سالہ رفاقت میں تحریک انصاف کو آٹھ سے زائد مرتبہ چھوڑ چکے ہیں مگر پھر بھی تحریک انصاف ہر وقت انکو پارٹی میں شامل کر لیتی ہے۔ تاہم ایک اور مثال اس ضمن میں خوشاب سے گل اصغر بگھور کی دی جا سکتی ہے۔ گل اصغر بگھور نے خوشاب میں تحریک انصاف کے لئے بہت کام کیا ہے مگر جب پارٹی مضبوط ہوئی تو ٹکٹس الیکٹیبلز کو دیے گئے ۔ شجاع خان بلوچ گروپ کو اگر تحریک انصاف کا ٹکٹ ملے تو ٹھیک ہے جبکہ اگر وہ ٹکٹ نسبتاً پڑھے لکھے امیدوار کو ملے تو غلط ہے۔ اب جبکہ بلوچ گروپ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہا ہے تو گل اصغر بگھور اور بلوچ گروپ میں پارٹی سے وفاداری کی حد تک کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا، مگر دونوں کے بارے میں ورکرز کی رائے بھی مختلف ہو گی۔ گل اصغر بگھور غدار ہوگا جبکہ بلوچ گروپ کو پارٹی کا اثاثہ سمجھا جائے گا۔

اس تمام بحث میں پارٹی ورکرز بھی کسی پارٹی ورکر امیدوار کی غلطی کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے جبکہ الیکٹیبلز کی ہر غلطی کو معاف کر دیتے ہیں کیونکہ لاشعوری طور پر ہمارا سیاسی نظام کمزور، پڑھے لکھے اور مڈل کلاس سیاسی ورکرز کو معاف نہیں کرتا ۔

ریپبلک پالیسی کے سروے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے غیر مقبول ترین راہنما ہیں مگر پھر بھی پارٹی کے لیڈرز ہیں، اس سے تحریک انصاف کے سیاسی ورکرز کی سیاسی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں میں سیاسی ورکرز کے لیے حالات تحریک انصاف سے بھی برے ہیں جہاں پر قیادت صرف مورثی ہے اور ایک ہی خاندان میں رہتی ہے۔ موروثی قیادت سے زیادہ سیاسی کارکنان کی توہین نہیں ہو سکتی۔

اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی تنظیم سازی بہتر کریں اور میرٹ پر ٹکٹ ایوارڈنگ میکنیزم تشکیل دیں تاکہ سیاسی کارکنان کے ساتھ ذیادتی نہ ہو، یہ بہت ہی ذیادتی کی بات ہے کہ ایک طرف سیاسی رکن کا استحصال کیا جائے اور دوسری طرف اسکو احتجاج بھی نہ کرنے دیا جائے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos