برطانیہ نے عالمی حالات میں غیر یقینی صورتحال اور بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر اپنے دفاعی اقدامات میں شدت لانا شروع کر دی ہے۔ مسلح افواج کے وزیر کرنل ایسکاٹ کارنز نے خبردار کیا ہے کہ جنگ کے سائے اب یورپ کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور برطانیہ کو ہر صورت مکمل تیاری کے ساتھ مستعد رہنا ہوگا۔
ایک انٹرویو میں کرنل کارنز نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران برطانیہ کے خلاف دشمن ریاستوں کی جاسوسی سرگرمیوں میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو موجودہ خطرات کی سنگینی اور پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دفاعی حکمت عملی میں فوری اور مؤثر اقدامات ضروری ہیں۔
کرنل کارنز نے مزید کہا کہ نیٹو ممالک کو اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ خطرات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ اور سنگین ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بروقت اور مضبوط دفاعی اقدامات اب ناگزیر ہیں تاکہ ممکنہ خطرات کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ پچھلے 50 سے 60 برسوں کے دوران برطانیہ نے اپنے دفاع کے معاملات کسی حد تک امریکا پر منحصر کر رکھے تھے، لیکن اب یہ وقت آ گیا ہے کہ ملک خود اپنے دفاع کی ذمہ داری اٹھائے اور امریکا پر مکمل انحصار کا رویہ ترک کرے۔ کرنل کارنز نے کہا کہ خود کفالت کے اصول پر عمل کرنا اب ملکی سلامتی کے لیے بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق، حکومت نے ایک نئی ملک کے دفاع کے لیے دشمن کی جاسوسی روکنے کا نظام یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو مخالف ریاستوں کی جاسوسی سرگرمیوں کا سراغ لگانے اور انہیں ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ یونٹ مستقبل میں بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے اور ملکی دفاع کو مضبوط بنانے میں کلیدی حیثیت رکھے گا۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب نیٹو کے نئے سربراہ مارک روٹے نے یورپی اتحادیوں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں روس کے ساتھ ممکنہ بڑے تنازع کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ یورپ میں بڑھتے ہوئے عسکری تناؤ نے خطے میں بے چینی اور سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش پیدا کر دی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یورپ میں موجودہ دفاعی تیاریاں اور بڑھتا ہوا تناؤ آنے والے مہینوں میں خطے کی سلامتی کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ممالک بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کریں تو خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں، جس کا اثر نہ صرف یورپ بلکہ عالمی امن اور استحکام پر بھی پڑے گا۔













