مصنف: ڈاکٹر محمد کلیم
انسان ایک سماجی حیوان ہے اور شروع سے ہی گروہ میں رہتا آیا ہے۔ گروہ میں رہنے کی وجہ سے ہمیشہ اس کے ذہن میں گروہ کی اہمیت مسلم رہی ہے۔ زمانہ قدیم کی تمام فکری و دینی تحریکیں اور نظام گروہ کو فرد پر اہمیت دیتے آئے ہیں۔ فرد پر لازم ہے وہ گروہ کی بات مانے اور گروہ کے مروجہ اصولوں پر عمل کرے اور جہاں گروہ کو کوئی خطرہ ہو وہاں اپنی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔
جدید نظام یعنی لبرل ازم نے آ کر اس سوچ کو بدلا ہے اور گروہ کی بجائے شخص کو اپنے تمام اصول کا مرکز قرار دیا ہے۔ ایک شخص کے پاس زندگی اپنے مطابق گزارنے کی اجازت ہے چاہے تو دین کو اپنائے چاہے تو چھوڑ دے۔ اگر وہ شادی کرنا چاہتا ہے تو کرے ورنہ بغیر شادی کے وہ زندگی گزار سکتا ہے۔ جدید نظام نے انسان کو دو حصوں میں تبدیل کر دیا ہے ایک کو وہ ذاتی زندگی کا نام دیتا ہے اور دوسروں کو سماجی زندگی کہتا ہے۔ ذاتی زندگی پر انسان کی اپنی مرضی ہے جبکہ سماجی زندگی پر ملک کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنا لازم ہے۔
آج دنیا میں دونوں قسم کے نظام اور فکر ہائے موجود ہیں۔ ایسے معاشرے جہاں پر گروہی مفاد کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہاں پر خاندانی نظام بہت مضبوط ہے۔ خاندانی نظام ہی ایک واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان کے تمام کارہائے نمایاں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ یہ کام کوئی سرکار چاہے اس کے جتنے مرضی مخبر ہوں نہیں کر سکتے۔ اس نظام میں خاندان کو اولیت حاصل ہے۔ لیکن کیونکہ اس نظام میں سخت اصول بنائے جاتے ہیں اور شخصی آزادی پر بالکل پابندی لگی ہوتی ہے تو یہاں کے اکثر افراد، منافقت کا شکار ہو جاتے ہیں اور منافق بن جاتے ہیں۔
اس میں ان کی غلطی نہیں مگر نظام اتنا سخت ہوتا ہے کہ سچ بولنے والے کو سزا دیتا ہے۔ اس لیے رات کے اندھیرے میں شراب، شباب اور جوا سب چلتا ہے۔ ان معاشروں میں تمام اخلاقی برائیاں موجود ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے کردار پر فخر کرتے ہیں۔ شخصی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں معاشی مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ کوئی بھی شخصی آسانی سے اپنا پیشہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ ہر نئی آنے والے سوچ کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس میں خطرہ کی بو ہوتی ہے کہ شاید ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ایسا سوچا جا رہا ہے۔
اردو اور انگریزی میگزین خریدنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر رابطہ کریں
https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd
جدید معاشرہ جو کہ شخصی آزادی کی بنیاد پر چلتا ہے اس کے بھی اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ جدید معاشرہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ خاندانی نظام ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ اہمیت شخص کی ہے نہ کہ گروہ کی۔ اس لیے کوئی شخص جب چاہے خاندان کو چھوڑ کر اکیلا رہ سکتا ہے۔ اگر وہ خاندان میں بھی رہتا ہے پھر بھی اس کو ملک کے قانون میں بہت سی حفاظت حاصل ہے کہ اس کے والدین تک اس کو کسی کام سے زبردستی روک نہیں سکتے۔ خاندان بکھر گیا ہے بلکہ یہاں قبیلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لیکن ہر شے کے فائدے اور نقصان بھی ہوتے ہیں۔ کمزور خاندانی نظام یا لبرل ازم کی وجہ سے معاشرے میں منافقت نظر نہیں آتی۔ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار بغیر کسی خوف و خطر کے کر دیتا ہے۔ نئے نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور معاشرہ ان کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور ان پر کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری ایجادات نہ صرف سائنس کی بلکہ سوشل سائنس کی یہاں جنم لے رہی ہیں۔ ان معاشروں میں اکثر لوگ تنہا رہتے ہیں اس لیے تنہائی کا بھی شکار ہیں اور ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسے مرض عام ہیں جبکہ وہ معاشرے جن میں گروہ کی اہمیت زیادہ ہے وہاں پر یہ مسائل زیادہ دیکھنے کو نہیں ملتے۔
جدید نظام نے نہ صرف معاشرتی تبدیلیاں پیدا کی ہیں بلکہ معاشی تبدیلیاں بھی لے کر آیا ہے۔ جس کی وجہ سے سارا معاشرہ پیسہ کماتا ہے اور خرچ کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اشیاء اکٹھی کر کے خوشی اور راحت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ خرچ کرنے میں وہ آزاد ہے اس لیے چاہے تو جوا کھیل کر سارے پیسے اڑا دے یا پھر پی پلا کر جیب خالی کر دے۔ اس معاشی نظام نے نہ صرف جدید معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے بلکہ قدیم معاشرے بھی اس کی آگ سے بچ نہیں پائے۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا ایک نا آسودگی میں زندگی گزار رہی ہے۔
آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اس لیے اس کو اپنے سماج کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن وہ ایک علیحدہ ذات بھی ہے جس کی اپنی ضروریات بھی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جب انسان کو مکمل آزادی دی جاتی ہے تو وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا جبکہ اگر اس کو کچھ محدود آزادی دی جاتی ہے تو وہ زندگی بہتر گزارتا ہے اور اگر زندگی سے آزادی سلب کر لی جاتی ہے تو وہ منافق ہو جاتا ہے اور اس کی تخلیقی قوت بالکل مانند پڑ جاتی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں دونوں نظاموں کی بہتر باتیں شامل کی جائیں۔