امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر
شام ڈھلے جب بستی والے لوٹ کے گھر کو آتے ہیں
آہٹ آہٹ دستک دستک کیا کیا ہم گھبراتے ہیں
اہل جنوں تو دل کی صدا پر جان سے اپنی جا بھی چکے
اہل خرد اب جانے ہم کو کیا سمجھانے آتے ہیں
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
جس کی ہر اک اینٹ میں جذب ہیں ان کے اپنے ہی آنسو
وائے کہ اب وہ اہل دعا ہی اس محراب کو ڈھاتے ہیں
آج کی شب تو کٹ ہی چلی ہے خوابوں اور سرابوں میں
آنے والے دن اب دیکھیں کیا منظر دکھلاتے ہیں
ساری عمر ہی دل سے اپنا ایسا کچھ برتاؤ رہا
جیسے کھیل میں ہارنے والے بچے کو بہلاتے ہیں
نا ممکن کو ممکن امجدؔ اہل وفا کر سکتے ہیں
پانی اور ہوا پر دیکھو کیا کیا نقش بناتے ہیں