طاہر مقصود
پنجاب کے متنازعہ نہری منصوبوں اور سیلابی امداد کی تقسیم پر اتحادی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر پاکستان کو تقسیم کی سیاست کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی دہشت گردی کی بحالی، سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی معیشت کا شکار ہے، صوبائی اختلافات کو ہوا دینا وفاق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا نہری منصوبوں کے دفاع میں دیا گیا بیان اس تنازعہ کی اصل وجہ بنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب اپنے پانی سے نہریں بناتا ہے تو یہ کسی اور صوبے کا مسئلہ نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے سندھ کے رہنماؤں کو ان کے دروازوں پر جا کر جواب دینے کی دھمکی دی۔ یہ لہجہ ان کے والد نواز شریف کی اس صوبائی سیاست کی یاد دلاتا ہے جس نے 1980 کی دہائی میں انہیں پنجاب میں مقبول بنایا لیکن وفاق کو تقسیم کیا۔ مریم نواز کا یہ رویہ وقتی طور پر پنجاب میں مقبولیت لا سکتا ہے، لیکن اس کی قیمت وفاقی وحدت کو چکانی پڑے گی۔
پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو سندھ کے حقوق کا مسئلہ بنا کر سخت ردعمل دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں تلخ بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ اتحادی اتحاد کمزور ہو رہا ہے۔ پانی کے مسئلے پر تنازعہ ہمیشہ سے صوبوں کے درمیان حساس معاملہ رہا ہے۔ اسی لیے کونسل آف کامن انٹرسٹس نے ان منصوبوں کو تاحال روک دیا ہے تاکہ اتفاق رائے پیدا ہو۔ اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام صوبوں کے درمیان بداعتمادی کو مزید گہرا کر دے گا۔
یہ تنازعہ صرف نہری منصوبوں تک محدود نہیں بلکہ سیلابی امداد سے بھی جڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تجویز دی تھی کہ امداد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تقسیم کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ متاثرین تک پہنچ سکے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس تجویز کو سیاسی مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا۔ یہ رویہ تعاون کی بجائے محاذ آرائی کو ظاہر کرتا ہے اور متاثرہ عوام کے لیے حقیقی ریلیف فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
مریم نواز کی حکمت عملی پنجاب کے متوسط طبقے میں صوبائی جذبات کو ابھارنے کی کوشش ہے، لیکن یہ رویہ دوسرے صوبوں کو بیگانہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کا وفاق پہلے ہی معاشی ناہمواریوں اور گورننس کے مسائل سے دباؤ میں ہے۔ اگر پانی اور امداد کو بھی سیاست کا ایندھن بنایا گیا تو یہ وفاق کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ صوبائی سیاست وقتی فائدہ دیتی ہے لیکن وفاق کو کمزور کرتی ہے۔ نواز شریف نے بھی اسی بیانیے پر اپنی سیاست مضبوط کی تھی لیکن چھوٹے صوبوں میں یہ احساس گہرا ہوا کہ پنجاب حاوی ہو رہا ہے۔ آج مریم نواز اسی راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر وہ پاکستان کی ممکنہ وزیر اعظم کے طور پر اپنا قد بڑھانا چاہتی ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ قومی قیادت وفاقی سوچ سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ صوبائی محاذ آرائی سے۔
پاکستان کو ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو صوبوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنے۔ کونسل آف کامن انٹرسٹس کو نظر انداز کرنا آئین اور وفاق دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اگر اتحادی جماعتیں اپنے اختلافات کو حل نہ کر سکیں تو سب سے بڑا نقصان پاکستان کی وحدت کو پہنچے گا۔
مریم نواز کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ سندھ کے خدشات کو تسلیم کر کے اور سیلابی امداد کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کر کے وہ اپنی قومی قیادت کو مستحکم کر سکتی ہیں۔ وقتی سیاسی فائدے کے لیے وفاق کو کمزور کرنا نہ صرف نقصان دہ ہوگا بلکہ مستقبل میں ان کی سیاست کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔