
آپریشن سیندور کی بابت محترمہ دیبو جادو ساون بھادوں، اپنے تازہ ترین انٹرویو میں فرماتی ہیں:- “سیندور آپریشن کا نام سنا ۔ اچھا لگا۔ اندازہ ہوا کہ سرحد پار کوئی ناری سیندور لگائے آپریشن کی منتظر ہے، گائنی وارڈ میں لیٹی ہے، وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ،درد زہ کا شکار ہے، لاچار ہے، درد نہ سہہ پا رہی ہے، نہ کسی سے کچھ کہہ پا رہی ہے۔ عجیب صورتحال ہے ،نہ کوئی سرہے تال ہے ، شاید ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے ، وہاں تو امید سے ہونا بھی وبال ہے، نہ کسی کو کسی کا خیال ہے ، عوام بے حال ہے، خوش رہنا محال ہے، صنف نازک کا عجب حال ہے”۔ایک سوال جس کا موضوع” برصغیر کی خواتین کے مسائل تاریخی تناظر “میں تھا ، اس کے جواب میں محترمہ فرماتی ہیں ” دروغ و فروغ بیان بہ گردن راوی ، اگرچہ مصنف ہے پورے پاکستان کے لکھاریوں پر حاوی، زندگی کا طویل حصہ لاہور اور گوجرانوالہ میں بتایا، ایک دن لاہور میں بیٹھ کر فرمایا” گاندھی جی کی زیارت ہو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ قیادت سے زیادہ عیادت کے اہل تھے۔ پڑوسی ملک کے تازہ ترین آپریشن کا نام سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہاں خواتین کی حالت کی بابت کسی کی توجہ نہیں۔جس عورت نے سیندور لگایا ہوا ہو اس کا آپریشن کر دیا جاتا ہے بھلے وہ زچگی کی کیفیت سے گذر رہی ہو یا نہ گذر رہی ہو۔ یہ تو ظلم ہے زیادتی ہے ۔ کھلا تضاد ہے، فساد ہے، ایسا معاشرہ برباد ہے، زائد المیعاد ہے۔ ” محترمہ دیبو جادو ساون بھادوں، بنایدی طور پر برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر اتھارٹی ہیں ۔ تمام عمر تاریخ پڑھائی۔ ایک تاریخی سوال کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دیتے ہوئے فرمایا “اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان تجار اور فاتحین کی آمد سے پہلے برصغیر میں عورت بنیادی حقوق حاصل نہ تھے۔ خواتین تاریک دور سے گذر رہی تھیں۔ سیندور لگاتی تھیں ، ستی ہوجاتی تھیں، اللہ اللہ خیر صلا۔ دن پھرے اور مسلمان آئے ، تعدد ازدواج کا نظریہ ساتھ لائے، خاتون بھلے سیندور لگائے یا نہ لگائے ، ان کی زوجہ کہلائے، علما نے بھی ہاتھ پکڑائے ، فتوے جاری فرمائے کہ مسلم مرد یہاں کی عورت کو بھی اہل کتاب کی طرح اپنے عقد میں لائے، تاجر آئے ، فاتح آئے، یہیں گھر بسائے ، عورتوں نے سیندور بھی لگائے ، مسلمانوں نے گھر بسائے۔ آج بھی برصغیر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ چند عیسائی پادری سمجھتے ہیں کہ اسلام کے پھیلاؤ میں تعداد ازدواج کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ مسلمان بہت زیادہ شادیاں کرتے ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اس لیئے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ مسلمان چونکہ ہمیشہ سے خواتین کی کے حقوق کے محافظ رہے ہیں۔ خواتین مسلم ہونے کے باوجود بھی سیندور لگاتی رہیں، اپنے ماضی پر اتراتی رہیں”۔سیفی صاحب بھی سیندور آپریشن کا نام سن کر جذباتی ہوجاتے ہیں، بہت کچھ فرماتے ہیں ۔ کچھ ان کے خیالات تو سینسر کی زد میں آتے ہیں، بقیہ ہم آپ کو بتلاتے ہیں۔ عورت لگائے سیندور ، بجا ہے کرے غرور ، اٹھائے سرور، مگر میرے حضور ، مرد تو کھائیں کھجور ، کہلائیں مزدور، یا ہوں مجبور، تھکن سے چور چور، اپنے معاملات افہام و تفہیم سے نمٹائیں، سیندور کو نہ بیچ میں لائیں، جذباتی در جذباتی ہوجاتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں:- ” اگر تمہارے پاس سیندور، تو ہمارے پاس بھی ہے نور، تمہیں کیا خبر کیا ہوتا ہے نور کا سرور ، ہمارا کردار ہے اللہ تعالی کی اتباع سے بھرپور ، شیطان رہتا ہے ہم سے دور دور،ہم نہیں ذرہ بھی مجبور، جو بناپھرتا ہے مغرور، ٹوٹ دیں گے۔ ہم اس کا غرور ، سلامت رہے گا لاہور، چمکے گا اپنا قصور، مکہ بھی ہمارا ہے کوہ طور۔مومن اللہ تعالی کے نور کے سہارے زندگی گذارتا ہے ۔ اللہ تعالی ہی زمین و آسمان کا نور ہے، اسی کو ہی زیبا غرور ہے۔ باقی ہر کسی کا گھمنڈ توڑنے کے لیے مسلمان ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں۔
فرقان کی آیات کامفہوم ہے ” اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق اس (طاق) میں ایک روشن چراغ ہے ‘ وہ چراغ شیشے (کے فانوس) میں ہے اور وہ شیشہ ایک چمکدار ستارے کی مانند ہے وہ (چراغ) جلایا جاتا ہے زیتون کے ایک مبارک درخت سے ‘ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی ،قریب ہے کہ اس کا روغن (خود بخود) روشن ہوجائے ‘ چاہے اسے آگ نے ابھی چھوا بھی نہ ہو روشنی پر روشنی اللہ ہدایت دیتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے اور اللہ یہ مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے ‘ جبکہ اللہ تو ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ (اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں (پائے جاتے ہیں) جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے وہ تسبیح کرتے ہیں اللہ کی ان (مساجد) میں صبح اور شام۔وہ جواں مرد جنہیں غافل نہیں کرتی کسی قسم کی کوئی تجارت یا خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے ‘ نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے (اس سب کچھ کے باوجود بھی ) وہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں اس دن کے تصور سے جس دن الٹ جائیں گے دل اور نگاہیں” ۔سلیم الفطرت انسان کے دل میں اللہ تعالی کی معرفت فطری طور پر پائی جاتی ہے، جب وہ کتاب اللہ اور سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا باطن ایمان کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ہمارے اہل وطن نیک دل ہیں، سادہ ہیں، مخلص ہیں اور سلیم الفطرت ہیں جبکہ ہمارا دشمن کے دل ایمان کے نور سے محروم ہیں۔وہ دنیا پرست انسان ہیں۔ وہ دنیا پرست ہیں۔ ان کے دلوں میں نفسانی خواہشات کا بسیرا ہے، ان کا مقدر اندھیرا ہے، اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی۔ مسلمان اللہ تعالی کے نور سے دیکھتا ہے ۔ مسلم کے دل کا سرور اللہ کی اتباع میں ہے۔ جب ملک پر کوئی حملہ کردے تو جہاد ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے۔ مسلمان کی سب سے بڑی تمنا شہادت ہوتی ہے ۔ شہید کی موت میں ہی قوم کی حیات ہے، اگر چہ شہید کبھی مرتا نہیں۔ وہ اپنے لہو سے پوری قوم کی زکوۃ دیتا ہے۔ پاکستان کا ہرگاؤں کسی نہ کسی شہید کے نور سے منور ہے۔ فرقان میں مذکور ہے:-” اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے”۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:- اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :”اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گا”۔الحمد اللہ ہم مومن ہیں اور دنیا جانتی ہے:-
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسي کو نہيں معلوم کہ مومن
قاري نظر آتا ہے ، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے
دنيا ميں بھي ميزان، قيامت ميں بھي ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلي اس کے شب و روز
آہنگ ميں يکتا صفت سورئہ رحمن
بنتے ہيں مري کارگہ فکر ميں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان