
ایک صاحب بنک تشریف لے گئے۔پہلے دستیاب افسر سے پوچھا:-” سپیرا صاحب سے ملنا ہے۔کہاں بیٹھتے ہیں”؟جواب ملا” سپیرا صاحب تو سانپ پکڑنے گئے ہوں گے۔ ابھی آپ کو کیسے مل سکتے ہیں”؟ صاحب چلے گئے۔کافی دیر بعد آۓ۔سوال جواب دہراۓ گئے۔اگلے دن آۓ، گارڈ سے پوچھا:- سپیرا صاحب سے ملنا ہے۔کہاں بیٹھتے ہیں؟ گارڈ نے بمشکل ہنسی روکی ،کہنے لگا” صاحب آپ شاید ساری زندگی ولایت رہے ہیں۔ ہمارے بنک میں سپیرا صاحب نہیں ،سپراصاحب افسر ہیں ،موجود ہیں، اپنی سیٹ پر تشریف رکھتے ہیں”۔ صاحب سپرا صاحب سے ملے اور پھر ملتے ہی رہے۔سپرا صاحب کا اخلاق بہت اعلی تھا۔ وہ صاحب آج بھی سپرا صاحب کے مداح ہیں۔ کالم نگار توہر سپیرا صاحب اورہر سپرا صاحب کا مداح ہے،ایک سپرا صاحبہ پہ دل سے فدا ہے، وہ دل ربا کالم نگار کی زوجہ ہے۔زوجہ سے یاد آیا، اک سپیرا صاحب جب یاد آتے ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور تادیر بھیگی ہی رہتی ہیں۔سپیرا صاحب جھنگ کے نواحی علاقے موچی والا کے رہنے والے تھے۔ والد محترم کے دوست تھے۔اکثر ملنے آتے تھے۔ نامی گرامی سپیرے تھے۔ سانپ پکڑنے اور سانپ کے کاٹے کا علاج کرنے میں دور دور تک مشہور تھے۔ والد محترم کے جذبے کو دیکھتے ہوۓ انہیں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا خیال آیا۔ ایک ہی بیٹا تھا جسے بھرپور محنت کر کے پڑھایا۔ بچہ ہونہار تھا۔پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں زیر تعلیم تھا۔ چھٹیوں پر گھر آیا۔والد اپنے معمول کے مطابق جڑی بوٹیوں کی تلاش میں کسی دور دراز علاقے گئے ہوۓ تھے۔ صاحب زادہ رات کو اٹھا۔ گھر سے باہر نکلا۔سانپ نے کاٹ لیا۔ جان دے دی۔سپیرا صاحب تہی دامن رہ گئے مگر دامن صبر سے خالی نہ ہوا۔ صبر کیا اور صبر جمیل کیا۔ بیٹا چلا گیا تھا۔ چار بیٹیاں زندہ تھیں جن کیلیے زندہ رہنا تھا۔ایک بیٹی کو باپ اور بھائی سے محبت نہیں عشق تھا۔ اس نے دن رات ایک کر دیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئی۔باپ نے بھی تمام عمرلوگوں کی جان بچائی تھی۔ ہماری ڈاکٹر صاحبہ بھی باپ کی روایت کو جاری رکھے ہوۓ ہیں ۔فلاحی کاموں میں بھی دل کھول کر حصہ لیتی ہیں۔
ہر سپرا ،سپیرا نہیں ہوتا اور ہرسپیرا، سپرا نہیں ہوتا لیکن کالم نگار کا تجربہ ہے کہ ہر سپرا اور ہر سپیرا درد دل ضرور رکھتا ہے۔ سپرا قبیلہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے ۔ جھنگ اور ساہیوال کے سپرا بہت مشہور ہیں۔ ہمارے “ہم ظلم” کے بقول حیدر علی اور ٹیپو سلطان بھی سپرا تھے۔جی ٹی روڈ سے لاہور سے ملتان آتے جاتے وسط میں ساہیوال کا خوبصورت شہر ہے۔چک سپرا کا بورڈ مین روڈ سے نظر آتا ہے۔چک سپرا کو ایک اعزاز حاصل ہے۔یہاں کوئی بھی بہت بڑا ذمیندار نہیں لیکن ہر گھر سے کوئی شخص پاک فوج میں ہے تو کوئی سول سروس میں، کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر، کوئی استاد ہے تو کوئی وکیل۔ ساہیوال اور اوکاڑہ کے سنگم پر واقع چک سپرا کا تعارف تعلیم ہے۔یہاں کے باشندے زندگی کی دوڑ میں تعلیم کی بدولت کامیاب ہوۓ ہیں۔ لوگ نہ صرف خود تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی بچیوں کو بھی اعلی تعلیم یافتہ بنانے کیلیے تمام وسائل بروۓ کار لاتے ہیں۔سپرا صاحبا ن کی اکثریت حضرت صوفی برکت علی کی مرید ہے ۔گاؤں کے غریب باشندوں کی ایک واضح اکثریت ان پروفیسر صاحب کی بھی مرید اور دلدادہ ہے ،جنہوں نے ساری عمر اکنامکس پڑھائی، خدمت خلق کے حوالے سے نیک نامی کمائی ۔ ایک دن ایک چور صاحب نے ان کے شہر والے گھر کے باہرسے ان کی موٹر سائیکل چرائی، استاد ذی وقار نے متعلقہ تھانے میں رپٹ درج کروائی، چند دن مگر کوئی خوشخبری نہ آئی، نیا ایس ایچ او نکلا اپنے پروفیسر صاحب کا شیدائی، اپنی ذاتی موٹر سائیکل کی چابی بصد اصرار تھمائی،مال مسروقہ کی بازیابی کیلیے مہلت پائی، قصہ عجیب ہوا میرے بھائی ، چور نے خود ہی پروفیسر صاحب کی موٹر سائیکل لوٹائی۔ اپنی معذرت بھی درج کرائی، پروفیسر صاحب نے اسے بھی تھی اکنامکس پڑھائی۔پروفیسر صاحب کا ایک اور واقعہ بھی انتہائی سبق آموز ہے۔چک سپرا کے کاشت کار نے بچوں کی تعلیم کیلیے شہر میں گھر لینے کا سوچا تو قیمتیں سن کر پریشانی ہوئی ۔ ایک دن ایک دوست نے بتایا کہ فرید ٹاؤن میں ایک گھر کافی سستا مل رہا ہے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ گھر کا نمبر 420ہے۔پروفیسر صاحب نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر گھر خرید لیا۔ ان کا ایمان ہے گھر کا نمبر بھلے 420 ہو یا 302، بھلے 10 ہو یا 2، اگر مکین ایک نمبر ہو تو لوگ گھر کا نمبر بھول جاتے ہیں ، گھر والوں کا کردار یاد رکھتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے کردار کی سب سے بڑی گواہی کالم نگار کی اپنی گواہی ہے۔ جی ہاں! وہی کالم نگار جسے آبائی شہر والوں کو کبھی بتانا نہیں پڑا کہ اس کی شادی ساہیوال ہوئی ہے ۔ جھنگ والوں کو مکمل ادراک ہے کہ جس جھنگوی کو اور کہیں رشتہ ملے نہ ملے ،ساہیوال ضرور مل جاتا ہے کیونکہ جھنگ اور ساہیوال کا کلچر ایک ہے۔ساہیوال کا سپرا قبیلہ جھنگ سے ہی ہجرت یا نقل مکانی کر کے ساہیوال آ بسا۔ اہل جھنگ اور اہل ساہیوال کی مشترکہ قدریں اگر گنوائی جائیں تو شاید پوری کتاب لکھنی پڑے۔ ایک خصلت جو اہل جھنگ اور اہل ساہیوال کے خمیر میں ہے ،وہ ہے استاد کی عزت۔الحمد اللہ! آج کے دور میں بھی لوگ اپنے اساتذہ پر جان دیتے ہیں۔ راقم الحروف کی جب بھی ساہیوال تعیناتی ہوئی ، طویل عرصے کیلیے ہوئی۔ تمام عرصہ تعیناتی کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پروفیسر صاحب کا کوئی شاگرد یا شاگرد کے خاندان کا کوئی فرد دفتر نہ آیا ہو اور اپنے استاد محترم کے احسانات کو یاد نہ کیا ہو۔کالم نگار خود بھی آج تک اپنے اس گرامی قدر معلم کو کبھی نہیں بھولا، جس کا سگا بیٹا ہائی سکول میں ہم جماعت تھا۔ استاد محترم کالم نگار پر سگی اولاد سے زیادہ توجہ دیتے تھے کیونکہ انہیں گمان تھا کہ راقم الحروف ان کے بیٹے سے زیادہ محنتی ہے۔ تعلیم پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔گئے دنوں میں اساتذہ ماڈل نہیں ، رول ماڈل ہوتے تھے۔اپنے طلبا کے مستقبل کیلیے دن رات ایک کر دیتے تھے۔رویہ اور کردار مثالی ہوتا تھا۔ اہل علاقہ نسل در نسل ان پر فخر کرتے تھے۔
اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
عالمگیریت کے زیر اثر ہمارا معاشرہ تبدیلیوں کی نہیں ، طو فانوں کی زد میں ہے۔صدیوں سے رائج اخلاقی قدریں ملیا میٹ ہو رہی ہیں اور اکثریت کو احساس زیاں تک نہیں
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
معاشرے کا ہر طبقہ ایک دوسرے سے کچھ ایسے متصل ہے کہ ایک طبقہ دوسرے سے متاثر ہوۓ بغیر نہین رہ سکتا۔ تعلیم بھی کمرشل ہو گئی ہے اور استاد بھی لیکن اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے اساتذہ کرام کی کمی نہیں جو؎ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بدولت ہمارے ہاں کسی کا دامن محفوظ نہیں۔ہم بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالی کے نبی ﷺنے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت کی حفاظت فرض قرار دی ہے۔ کسی کی پگڑی اچھالنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔غیبت کرنا، بہتان لگانا مسلمان کے شایان شان نہیں۔مفکر ساہیوال کا خیال ہے” دوسروں کو آپ وہی کچھ دے سکتے ہیں جو آپ کے پاس ہو”۔ شاید سوشل میڈیا پر دوسروں کی عزت کی دھجیاں اڑانے والوں کے اپنے پاس عزت کی رتی بھی نہیں۔ اگر ان کے پاس تھوڑی بہت عزت ہوتی تو وہ دوسروں کو عزت ضرور دیتے”۔آیئے! اساتذہ کی عزت کریں ۔ اسی میں ہماری عزت ہے۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں