تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
سیفی گہری نیند سو رہا تھا۔یک لخت کمرے کا دروازہ کھلا۔چار جوان دندناتے ہوۓ اندر داخل ہو ۔ قہقہے لگانے لگ گئے۔ بیدار ہوا تو کچھ سمجھ نہ آیا۔آنکھیں ملتا رہا۔ قہقہے لگتے رہے۔ سونے ،جاگنے کی کیفیت میں رہا۔ دیر بعدسمجھ لگی۔ پرانادوست تین اجنبی ساتھ لایا ہے،ذرا نہ شرمایا ہے،جی بھر کے اس کا مذاق اڑایا ہے۔ وہ مذاق کرتا تھا،اڑاتا نہیں تھا۔اسے مذاق اڑانا انسانیت کی تذلیل لگتا تھا۔وہ انتہائی شائستہ حس مزاح رکھتا تھا۔چند لوگ پھر بھی بے ضرر باتوں کابرا مان جاتے تھے۔بات دل میں رکھ لیتے تھے۔یہ بھی ایسا ہی کوئی کیس لگتا تھا۔کافی دیر سب مذاق اڑاتے رہے۔سیفی نے برا نہ مانا، رسمِ دنیا نبھاتے ہوۓ بولا” آپ سب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی”۔ایک اجنبی نے مزید برا منہ بنایا، کہا ” کاش یہ بات میں بھی کہہ سکتا”۔فلک شگاف قہقہہ پڑا، قہقہوں کا نہ تھمنے والا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سیفی تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا ” آپ کی حسرت پوری ہو سکتی تھی،کاش والی تو بات ہی کوئی نہیں۔میں نے بھی رسماًاور اخلاقاً کہا ہے۔آپ بھی کہہ سکتے تھے اگر آپ کی تربیت اچھی ہوئی ہوتی۔ادب آداب آتے ہوتے ۔ کسی اچھے ادارے سے تعلیم حاصل کی ہوتی۔ دوست اچھے ہوتے۔تھوڑی بہت تمیز سیکھی ہوتی۔اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ آپ بالکل نہیں کہہ سکتے۔ آدھے گھنٹے سے آپ میری شکل و صورت کے بارے میں نازیبا گفتگو فرما رہے ہیں، قہقہے لگارہے ہیں، اترا رہے ہیں۔چھوٹامنہ بڑی بات تو سنا تھا آج “چھوٹا منہ چھوٹی بات”سن بھی لیا، دیکھ بھی لیا۔آپ کے ساتھ کے ایک صاحب “بڑا منہ چھوٹی بات” ہیں اور تیسرے صاحب “کھوٹا منہ کھوٹی بات” ہیں”۔بزرگ کہتے تھے”زبان جتنی لمبی ہو آدمی اتنا چھوٹا ہوتا ہے”۔آج اس کا عملی نمونہ بھی دیکھ لیا ۔ ایک نہیں، تین تین نمونے دیکھ لیے۔” کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر بعد لوگ رخصت ہوگئے مگر سیفی کو سوچ میں گم اور گم صم چھوڑ گئے۔ گفتگو کے آداب ،ہوتے جا رہے ہیں خواب،اٹھ گئے ہیں سب حجاب ، ہر کوئی خود کو سمجھتا ہے نواب، زبان سے کرتا ہے دوسروں کا احتساب ،چاہے کوئی ہو کتنا ہی عزت مآب، کر دیتا ہےاس کو خراب ،آدمی ہے مثل حباب،ساتھ چھوڑ دیتا ہے شباب،مدہم پڑ جاتی ہے آب و تاب ، دنیا ہے فقط ایک سراب۔آداب گفتگومشرقیت کا خاصہ تھے اور ہیں ۔لکھنؤ کے عوام کیا، نواب تک اپنی خوش کلامی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں،پہچانے جاتے ہیں، آج تک مانے جاتے ہیں ۔اردو تو زبان ہی خوش اخلاق لوگوں کی ہے۔اردو فقط ایک زبان نہیں پوری ایک تہذیب ہے جس کا طرہ امتیاز حسن اخلاق ہے۔ بزرگ کہتے تھے وہ انسان نہیں جسے چھوٹے بڑے کی پہچان نہیں،آداب کا دھیان نہیں،لفظوں کے استعمال کا گیان نہیں، جس کی گفتگو میں جان نہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک شرفا تو ذکر ہی کیا، طوائفیں بھی گفتگو کے آداب سے واقف بھی تھیں ۔ حسن تکلم کی تعلیم بھی دیتی تھیں ۔ ناول “امراؤ جان ادا ” اس دور کی ثقافت کی حقیقی عکاسی کرتا ہے ۔ اس ناول پر بننے والی فلم بھی قابل دید ہے ۔
“شکل مومناں کرتوت کافراں” پرانا محاورہ ہے . اب تو شکل بھی کافراں ہوتی ہے اور کرتوت بھی ۔ کافروں کا سب سے بڑا کرتوت بد زبانی ہے۔ غالب کو اپنے کافر ادا محبوب کو کہنا پڑا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
محبوب کا رویہ تبدیل ہوا یا نہیں، تاریخ خاموش ہے۔ بحر ادب کے شناور جانتے ہیں غالب نے محبوب بدل لیا۔ ہم محبوب بدلیں یا نہ بدلیں، مشرقیت کا شیوہ ضرور بدلتے جارہے ہیں۔ مصنف کے بقول” منہ پر شکوہ اور پیٹھ پیچھے تعریف مشرقیت کا شیوہ نہیں ہے۔” صد افسوس کہ اب ہمارا شیوہ بدل گیا ہے۔ ہم منہ پر بھی لوگوں کو جی بھر کر شرمندہ کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے کا تو کیا ہی کہنا۔ ایک صاحب تبلیغ کے بہت شوقین تھے ۔ تبلیغ بھی کرتے تھے اور تنبیہ بھی ۔ ایک دن ان سے شدید متاثرہ ،بے آسرا دوست نے خلق خدا کی یوں ترجمانی کی ” آپ کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔ آپ کسی کی غیبت نہیں کرتے ۔ جناب کا کمال یہ ہے کہ آپ آدمی کو منہ پر بے عزت کرتے ہیں، مسلسل کرتے ہیں اور اتنا کرتے ہیں کہ غیبت کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی “. “چھوٹا منہ بڑی بات” کا دور گذر چکا ہے۔ اب تو بچے بھی بد لحاظ ہوچکے ہیں۔ ایک صاحب نے رقت آمیز لہجے میں اپنے عہد کا دکھڑا یوں رویا ” چھوٹے تھے تو والدین کے سامنے چپ رہنا پڑتا تھا۔ تنہائی میں بھی بزرگوں سے ڈر لگتا تھا۔ اب خود والدین کے درجے پر فائز ہوئے ہیں تو بچے سوپر سے بھی اوپر جاچکے ہیں۔ بولنے نہیں دیتے۔ اگر کبھی کچھ کہ بیٹھیں تو پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ ۔ہمارے ہاں خواتین کی بابت سٹیج ڈراموں میں جگتیں کی جاتی تھیں لیکن عملی زندگی میں اگر کوئی کسی خاتون کے بارے میں ہلکی بات کرتا تھا تو معاشرہ بائیکاٹ کردیتا تھا۔ ہر طرف سے ایک صدا آتی تھی۔ ” جو لاہے کی مسخری ماں بہن تک”۔
ایک صاحب افسر بننے کے انتہائی شوقین تھے ۔ لیکن ان کے والد کو شدید تحفظات لاحق تھے۔ من مانی کی ۔ افسر بن گئے۔ والد صاحب نے کچھ نہ کہا ، فقط ایک نصیحت کی ۔ ” اگر سائل کا اخلاق افسر سے بہتر ہو تو اس سے بڑی نا کامی کوئی نہیں۔ امید ہے کہ تمہارے دامن پر یہ داغ نہیں لگے گا۔ ” انگریزی محاورے کا مفہوم ہے کہ کسی کی تعریف و توصیف ہمیشہ لوگوں کی موجودگی میں کریں۔ اگر کبھی کسی کو کچھ سمجھانا یا سخت الفاظ کہنے ہوں تو خلوت میں کہیں۔ جبکہ ہمارا رواج مختلف ہے۔ بدترین شخص وہ ہے جس کی تلخ زبانی کی وجہ سے لوگ اسے ملنا جلنا چھوڑدیں۔پیغمبر خدا مکارم اخلاق کے تکمیل کے لیے بھیجے گئے تھے. اللہ تعالی نے آپ کے اعلی اخلاق کی گواہی دی۔ بد ترین دشمن بھی مسلمانوں کے حسن اخلاق کے قائل رہے ہیں۔آئیے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں۔ اخلاق سنواریں اور دنیا و آخرت بھی ۔